زکریا سلطان
بہادر، طاقتور، پرعزم اور بلند حوصلہ رکھنے والوں کو پہلوان کہا اور مانا جاتا ہے۔یہ کیسے پہلوان ہیں جوچار مہینوں سے جنتر منتر پر روتے بیٹھے ہیں کہ ہائے ہمیں تو لوٹ لیا مل کے ظلم والوں نے ،کالے کالے ہاتھوں نے پیلے پیلے دانتوں نے ۔ارے بھئی یہ بھی کوئی پہلوانی ہوئی کہ روتے دھوتے بیٹھے ہیں کہ ہمارے ساتھ نا انصافی ہوئی، ہم پر ظلم ہوا ہمیں ستایا اور دبایا گیا ، جس کسی بدقماش نے بدتمیزی اور دست درازی کی اسی وقت اسے اٹھا کر پوری قوت سے پٹخ دیتے تو بات ختم ہوجاتی اور ایک نئی داستان شروع ہوتی۔ چاروں خانے چت ہونے والا اس وقت مظلوم بن کر خود چیختا چلاتا کہ ہائے میری کمر ٹوٹ گئی، ہڈی پسلی گولا کردی پہلوانوں نے ! تو لوگ پوچھتے کہ بھیا ماجرا کیا ہے ؟ تب خود ہی کارروائی ہوتی اور بات سڑکوں اور ایوانوں میں آتی کہ پہلوانوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے پراس کا سر پھوٹا یا ٹانگ ٹوٹی ، پولیس ناکہ کورٹ کچہری جو بھی ہوتا بعد میں دیکھا جاتا۔ہمارے پیارے پیارے ملک بھارت کا قانون ہر شخص کو اپنی حفاظت اور اپنا ڈیفینس کرنے کی پوری اجازت دیتا ہے، ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی جان اور مال کی حفاظت کرے، کسی کو کسی کی عزت سے کھیلنے اور اپنے عہدہ کا ناجائز استعمال کرنے اور دوسروں پر ظلم کرنے کی قانون ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ معلوم نہیں خاتون پہلوانوں نے اتنے عرصہ تک کیوں خاموشی اختیار کی اور ظلم سہتے رہے۔انہیں ڈرنے کی ضرورت کیا تھی؟ ظلم کے خلاف اپنی طاقت اور اپنے دست و بازو کا استعمال کرتے ہوئے محمد علی کلے کے انداز میں مکوں کی بارش کردیتے تو ظالم کے دانت نہ صرف کھٹے ہوتے بلکہ گننے کی نوبت آتی کہ کتنے ہیں اور کتنے گئے، ساتھ میں چہرے پر سرخی اور سوجن بھی نظر آتی کہ جب بھی آئینہ دیکھتا خود کو کوستا کہ ہائے یہ کیا ہوگیا، کیا سوچا تھا اور کیا ہوگیا۔ پہلوانوں نے تو گردن ہی توڑدی؟ اب برسر اقتدار ٹولہ کے ارکان گونگے بہرے اندھے بن کر اسے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ملک کے کسان اور اپوزیشن قائدین پہلوانوں سے ہمدردی اور یکجہتی کا اظہارکررہے ہیں تاکہ ان کا دکھ درد کم ہو۔ ان کا مطالبہ ہے کہ پہلوانوں پر ظلم کرنے اور انہیں ہراساں کرنے والے اس شخص کے خلاف کارروائی ہو جو ملک کی ان مایہ ناز بیٹیوں کی عصمت و عفت پر ہاتھ ڈال کر ان کی عزت سے کھیل رہا تھا، کھیل تماشے کے شعبہ کا صدر نشین ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ لڑکیوں کی عزت سے کھیلنے لگے، نا بابا نا یہ بہت بری بات اور نا معقول حرکت ہے جسے ایک مہذب معاشرہ اور اس کی معززخواتین ہرگزکبھی برداشت نہیں کرسکتیں۔اسی بات کو چوتھی پاس راجہ کی زبان میں ”اَن برداشت ایبل“ کہا جاسکتا ہے ۔ برسراقتدار جماعت سے تعلق ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو جی چاہے کرلے، قانون سے کھلواڑ کرنے اور چھچھوری حرکتیں کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی چاہے وہ کتنے ہی بڑے رتبہ کا باہو بلی ہو۔ باہو بلی تو دور کی بات ہے ہمارے ملک کے لوگوں نے تو بجرنگ بلی کے نام کا استحصال کرنے والوں کو نہیں بخشا ، بہرحال خاتون پہلوانوں سے فوری انصاف ہونا چاہیے اور ملزم کو گرفتار کرکے سزا دی جائے۔ یہی سب کا مطالبہ ہے، کسان بھی یہی کہہ رہے ہیں، ستیہ پال ملک بھی یہی کہہ رہے ہیں، اپوزیشن کے تمام قائدین یہی کہہ رہے ہیں اور عوام کی بھی پوری ہمدردی اور تائیدمظلوم خواتین پہلوانوں کے ساتھ ہے۔ میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ وزیر اعظم مودی نے بیٹی پڑھاﺅ بیٹی بچاﺅ کا نعرہ دیا ہے ، سب کا ساتھ سب کا وکاس بھی انہوں نے ہی کہا تھا مگر افسوس کہ ساتھ صرف ظالموں اور لٹیروں کا دیا جارہا ہے، وکاس بھی ان ہی کا ہو رہا ہے جو بڑی تشویش کی بات ہے۔ باپو کے دیش کی یہ حالت دیکھ کر خود باپو بھی یہ کہہ رہے ہوں گے ” دیکھ تیرے سنسار (بھارت) کی حالت کیا ہوگئی بھگوان کتنا بدل گیا انسان“
پہلوانوں کو ہمت سے کام لینا چاہیے، انصاف کے حصول تک قانونی اور جمہوری جنگ پرامن طورپر ڈٹ کرلڑنی چاہیے۔کامیابی ان کے قدم چومے گی اور ظالم کو جھکنا ہی پڑے گا۔ پہلوان یقینا بہادر ہوتے ہیں، بلند حوصلہ رکھتے اور طاقتور ہوتے ہیں۔ اب تو خیر ہر جگہ غنڈوں کا راج ہے ورنہ ماضی میں ہم نے بہت سے پیشہ ور اور نامی گرامی پہلون دیکھے ہیں، کسی زمانہ میںپاکستان کے گاما خاندان کے بھولو پہلوان، گوگا پہلوان،اسلم پہلوان، اکرم پہلوان، امام بخش پہلوان اور ہندوستان کے پہلوانوں اُدے چند اور دارا سنگھ کا نام بہت مشہور تھا ۔ خود ہمارے شہر حیدرآباد کے بعض پہلوان بہت مشہور تھے‘ ان میں بیگم بازار کے گردھاری لال پہلوان اور بارکس کے مقبول پہلوان اور غوث پہلوان بہت مشہور تھے، لوگ دور دور سے انہیں دیکھنے اور کشتیوں کے مقابلوں سے محظوظ ہونے کیلئے فتح میدان اور گوشہ محل اسٹیڈیم آیا کرتے تھے، حیدرآباد کے کئی علاقوں میں اکھاڑے تھے جہاں فن کشتی باقاعدہ سیکھائی جاتی تھی، کئی نامور پہلوان یہاں سے نکلے۔ حیدرآباد کے ایک جیوٹ کافی مشہور و معروف سعید پہلوان گزرے ہیں جن کے نام کا کسی زمانہ میںبہت چرچا تھا اور لوگ ان کے نام سے لرزتے تھے، ہمیں یہ نہیں معلوم کہ سعید پہلوان فن کشتی کے پیشہ ور پہلوان تھے یا نہیں البتہ ان کی موٹر سائیکل اور ”سونٹا“ بہت مشہور تھا۔
٭٭٭