حیدرآباد

امت مسلمہ، تمام امتوں سے بہتر، الانصار فاؤنڈیشن کے زیراہتمام درس قرآن کی 119 ویں نشست، مفتی حافظ محمد وجیہ اللہ سبحانی کا خطاب

انسان جب تاریکی میں ہوتا ہے تو بجلی کی روشنی ظاہر ہونے پر چلنا شروع کردیتا ہے اور جب وہ چمک معدوم ہوجاتی ہے تو رک جاتا ہے، اسی طرح جب منافقین ایمان کا اظہار کرتے ہیں تو مومنوں کے درمیان چلنا شروع کردیتے ہیں کیوں کہ ان کا اظہار ایمان بظاہر قبول کرلیا جاتا ہے لیکن جب مرجاتے ہیں تو قبر کے اندھیرے میں پڑے رہتے ہیں۔

حیدرآباد: انسان جب تاریکی میں ہوتا ہے تو بجلی کی روشنی ظاہر ہونے پر چلنا شروع کردیتا ہے اور جب وہ چمک معدوم ہوجاتی ہے تو رک جاتا ہے، اسی طرح جب منافقین ایمان کا اظہار کرتے ہیں تو مومنوں کے درمیان چلنا شروع کردیتے ہیں کیوں کہ ان کا اظہار ایمان بظاہر قبول کرلیا جاتا ہے لیکن جب مرجاتے ہیں تو قبر کے اندھیرے میں پڑے رہتے ہیں۔

متعلقہ خبریں
الانصار فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ہفتہ واری درس قرآن کی 119 ویں نشست
شریعت محمدیؐ کی پابندی میں دارین کی کامیابی، الانصار فاؤنڈیشن کے زیراہتمام درس قرآن کی 118 ویں نشست سے مفتی حافظ محمد وجیہ اللہ سبحانی کا خطاب
الانصار فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ہفتہ واری درس قرآن کی 118 ویں نشست
امیر جامعہ نظامیہ مفتی خلیل احمد کو تہنیت
رب کو راضی کرنے والا دو جہاں میں عزت والا، الانصار فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام درس قرآن کی 117 ویں نشست سے مفتی حافظ محمد وجیہ اللہ سبحانی کا خطاب

اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو گرج وچمک سے ان کے کانوں اور نگاہوں کو ختم کردے اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو قرآن کریم کی وعید اور عذاب سے منافقوں اور یہودیوں کی سننے کی قوت اور قرآن حکیم کی وضاحت سے ان کے دیکھنے کی قوت سلب کردے۔

ان خیالات کا اظہار مفسر قرآن حضرت علامہ مفتی حافظ محمد وجیہ اللہ سبحانی نظامی نقشبندی قادری چشتی، امام جامع مسجد محبوبیہ ریاست نگر مارکٹ و خطیب مسجد رضیہ بیگم ملک پیٹ جدید نے 18/ اگست 2024ء بروز اتوار بعد مغرب الانصار فاؤنڈیشن کے زیراہتمام جامع مسجد محبوبیہ ریاست نگر مارکٹ میں ہفتہ واری درس قرآن کی 119 ویں نشست میں سورہ بقرہ کی 20 ویں آیت پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔

مولانا قاضی ابواللیث شاہ محمد غضنفر علی قریشی اسد ثنائی خطیب جامع مسجد محبوبیہ ریاست نگر و بانی الانصار فاؤنڈیشن نے نگرانی کی۔ قاری محمد تراب علی قریشی نائب امام مسجد محبوبیہ کی قرأت اور شیخ عبد السلیم کی نعت سے درس کا آغاز ہوا۔

محترم جنا ب محمدثناء اللہ حقانی نقشبندی قادری و محترم جناب محمد ضیاء اللہ عرفانی نقشبندی قادری نے بحیثیت مہمانان خصوصی شرکت کی۔ مفتی صاحب نے سلسلہ کلام جوڑتے ہوئے کہا کہ  مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس آیت میں منافقین کے حال کو اور زیادہ واضح فرمایا گیا کہ جس طرح بارش میں بجلی کی چمک سے آنکھیں چندھیاتی اور بند ہوجاتی ہیں اور اس کی روشنی سے مسافر کچھ چلنے لگتا ہے اور اندھیرا ہونے پر ٹھہر جاتا ہے اس حال میں وہ حیران ہوتا ہے، نہ منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے اور نہ لوٹ سکتا ہے۔

اسی طرح منافقین جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کھلے اور واضح معجزات اور قرآن پاک کی آیات دیکھتے ہیں جو مثل چمکتی ہوئی بجلی کے ہیں تو مجبوراً تصدیق کرلیتے جیسے کہ مسافر اس روشنی میں کچھ چل لیتے تھے اور پھر شکوک و شبہات کی تاریکی میں آکر رک جاتے تھے، جیسے کہ وہ مسافر اندھیرا ہوجانے پر ٹھہر جاتے ہیں۔

لہٰذا ان کے دل کو سکون و قرار نہیں بلکہ حیران و سرگرداں ہیں کہ اسلام کو مانیں یا نہ مانیں؟ علاوہ ازیں برق قرآن کی روشنی سے آنکھ بند کرنا اور اس کا انکار کرنا بے کارہے کیونکہ اول تو اس سے بصیرت دور نہیں ہوتی اور پھر بھی اللہ تعالیٰ ان کواندھا بہرا کرسکتا ہے۔

اب بھی بہت سے لوگ دیکھے جاتے ہیں جو دل سے اسلام کی حقانیت کا اقرار کرتے ہیں پھر ان کے دلوں میں ایسے شبہات آجاتے ہیں کہ جس سے وہ حیران رہ جاتے ہیں۔

اس کی دوسری تفسیر وہ بھی ہوسکتی ہے جو سابق میں بیان ہوئی، یعنی عیش و آرام پاکر اسلام کی حقانیت کے قائل ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی مصیبت پڑجائے تو منکر۔جنگل کا مسافر گھبراتا ہے اور گھر والے خوش ہوتے ہیں یعنی سایہ والوں کے لیے بادل رحمت و خوشی کا سبب ہے بے سایہ لوگوں کے لیے عذاب۔

سرزمین مدینہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نبوت کے آسمان،صحابہ اپنے نبی کے سایہ میں اور منافقین سایہ سے محروم۔ قرآن اس آسمان کا بادل، احکام قرآن بارش، عذاب کی آیات گرج وغیرہ۔ منافقین گھبرائے ہوئے۔ یہ اختلاف حال تاقیامت رہے گا۔ انسان کو جسمانی و روحانی سایہ کی ہر وقت حاجت ہے، گرمی سردی و بارش سے بچنے کے لیے سایہ کا محتاج ہے۔

مفتی وجیہ اللہ سبحانی نے کہا کہ اس آیت سے چند فائدے حاصل ہوئے۔ (۱) اسباب کی تاثیر اللہ تعالیٰ کے ارادے پر موقوف ہے اگر وہ نہ چاہے تو کسی سبب سے کچھ بھی اثر نہ ہو۔ (۲) حق تعالیٰ کسی سبب کا محتاج نہیں وہ چاہے تو بغیر سبب بھی کرسکتا ہے۔

یہاں فرمایا جارہا ہے کہ بجلی اور گرج نہایت تیز تھی مگر ان کی آنکھیں اور کان سلامت رہے کیونکہ اللہ رب العزت نے ان کواندھا اور بہرہ کرنا نہ چاہا اور اگر وہ چاہتا تو بغیر ان اسباب کے بھی کرسکتا تھا۔ (۳) آج بھی جولوگ اللہ کی عبادت دنیوی آرام کے لیے کرتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں۔

بعض ایسے لوگوں کو بھی دیکھا گیا کہ اگر ان کا کوئی نقصان ہوگیا تو نماز چھوڑ دی اور کہنے لگے کہ نماز ہم کو راس نہ آئی اور اگر راس آتی تو ہمارا یہ نقصان نہ ہوتا۔ یہ لوگ اس آیت سے عبرت حاصل کریں، اگرچہ نیک کاموں سے بلائیں ٹل جاتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ نیکو کار پر کبھی کوئی دنیاوی مصیبت آئی ہی نہیں۔

اگر ایسا ہوتا تو صحابہ کرام خصوصاً حضرت امام حسین رضی اللہ عنہم پر کوئی تکلیف نہ آتی بلکہ صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ اپنے ذاتی فائدے کو مدنظر رکھ کر عبادت کرنا درست نہیں۔ لہٰذا محض جنت کے لیے نماز نہ پڑھی جائے وہ تو اللہ کے فضل سے ملے گی، نماز وغیرہ تو رب کو راضی کرنے کے لیے ہیں۔

بارگاہ الٰہی میں تاجر بن کر نہ آنا چاہیے یعنی یہ نہ کہنا چاہیے کہ الٰہ العالمین! ہمارے اعمال کے بدلے جنت دے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اپنے فضل سے ہمارے گناہ فرمادے۔ (۴) ایمان اطمینان سے حاصل ہوتا ہے، نیز ایمان حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کا نام ہے نہ کہ محض جاننے کا؟

حقیقت یہ ہے کہ مشرکین بھی آقا علیہ السلام کو جانتے تھے مانتے نہ تھے۔ قرآن کریم فرماتا ہے: وہ اس نبی کو ایسا پہچانتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ (بقرہ: 146)۔

مفتی حافظ محمد وجیہ اللہ سبحانی نے درس قرآن کی 119 ویں نشست کے اختتامی کلمات میں کہا کہ منافقین کے برخلاف امت مسلمہ ایسی امت، ایسی قوم، ایسی ملت اور ایسی تہذیب و کلچر کی حامل ہو کہ اس کے پاس اونچے اقدار ہوں، اس کے پاس اخلاقیات ہوں۔

اس کے پاس اسلامی ورثہ ہو۔ امت مسلمہ اپنی حیثیت، اپنی قدر و قیمت، اپنی رفعت و بلندی اور بہتری وخوبی اس وقت تک ثابت کرتی رہی ہے جب تک کہ غیر مسلم و منافقین اس سے متاثر نہ ہوجائیں اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں کہ بلاشبہ آقائے نامدار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت ایسی ہی عمدہ و مثالی ہوتی ہے۔  اس موقع پر عوام الناس کی کثیر تعداد شریک تھی۔

a3w
a3w