مشرق وسطیٰ

غزہ میں 80 فیصد علاقہ تباہ، کوئی جگہ محفوظ نہیں، حالات ناقابلِ بیان

جمعرات کو غزہ کی وزارتِ صحت نے کہا کہ علاقے میں اسرائیل اور حماس کی جنگ میں 40,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

غزہ : جمعرات کو غزہ کی وزارتِ صحت نے کہا کہ علاقے میں اسرائیل اور حماس کی جنگ میں 40,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

متعلقہ خبریں
افغانستان میں خواتین اپنے حقوق سے محروم:انٹونیو گٹریس
غزہ میں اسرائیلی فوج کا سیف زون ایریا میں خیموں پر حملہ، 18 فلسطینی زندہ جل کر شہید
اسرائیل بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے تمام فیصلوں پر جلد عمل درآمد کرے: ترکیہ
برطانیہ میں سیکل رانوں کی مہم، غزہ کیلئے فنڈس جمع کئے جارہے ہیں
اسرائیلی حملوں سے تباہ غزہ کی بحالی کیلئے 40 ارب ڈالر درکار ہوں گے: اقوام متحدہ

غزہ میں وزارت نے کہا کہ اسرائیل کی جارحیت میں 92,401 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں اور 85 فیصد سے زیادہ آبادی گھروں سے بے گھر ہو گئی ہے۔ ان اعداد و شمار میں عام شہریوں اور مزاحمت کاروں میں فرق نہیں کیا گیا۔

بین الاقوامی ثالثین دس ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ کو روکنے کے لیے مزید زور لگا رہے ہیں جس کے دوران ہلاکتوں کی تعداد کا یہ اعلان سامنے آیا۔غزہ میں صحت کے حکام کو ہلاک شدگان کی مکمل شناخت کے لیے جدوجہد کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ لاشیں بھرے ہسپتالوں اور مردہ خانوں میں آتی ہیں جہاں وہ کہتے ہیں کہ جنگ اور نقلِ مکانی کی افراتفری کے درمیان اعداد و شمار مرتب کیے جاتے ہیں۔

ہلاک شدگان کے بارے میں جمعرات کو جاری کردہ اپنی تازہ ترین تفصیلی رپورٹ میں وزارت نے کہا کہ 40,005 لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں۔ صحت کے حکام اور شہری دفاع کے کارکنان کہتے ہیں کہ اصل تعداد دیئے گئے اعداد سے ہزاروں کے حساب سے زیادہ ہونے کا امکان ہے کیونکہ فضائی حملوں میں تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے تلے بدستور کئی لاشیں دبی ہوئی ہیں۔

غزہ میں اسرائیل کی فضائی اور زمینی کارروائی حالیہ تاریخ کی تباہ کن ترین فوجی مہمات میں سے ایک رہی ہے۔کارکنان پانچ اگست 2024 کو غزہ کی پٹی کے خان یونس کے قبرستان میں اسرائیل کی طرف سے واپس کی گئی 80 سے زائد لاشوں میں سے ایک لاش لے جا رہے ہیں بمباری اور گولہ باری نے پورے کے پورے فلسطینی خاندانوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔ قبرستانوں تک اکثر لوگوں کی رسائی نہیں ہوتی، اسرائیلی فضائی حملوں سے فرار ہونے والے خاندان جہاں بھی ممکن ہو اپنے مردوں کو دفن کر دیتے ہیں – گھر کے عقب میں، سڑک کے کنارے اور اپنے گھروں کی سیڑھیوں کے نیچے۔

اسرائیل کہتا ہے کہ اس کا مقصد حماس کو ختم کرنا ہے۔ یہ حماس کو شہریوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار بھی قرار دیتا ہے کیونکہ اس کا الزام ہے مزاحمت کار شہری علاقوں میں کام کرتے ہیں اور انہوں نے زیرِ زمین سرنگوں کا وسیع نیٹ ورک بنا رکھا ہے۔

اسرائیل افواج نے باقاعدگی سے مساجد، سکولوں، ہسپتالوں اور قبرستانوں کو نشانہ بنایا ہے جہاں اس کا دعویٰ ہے کہ مزاحمت کار موجود تھے یا سرنگیں واقع تھیں جو اکثر عام شہریوں کی ہلاکتوں کا سبب بنے ہیں۔لڑائی میں 329 اسرائیلی فوجی بھی مارے گئے ہیں۔

اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ غزہ میں ہلاک شدگان میں حماس کے 15000 مزاحمت کار بھی شامل ہیں لیکن انہوں نے ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں۔غزہ کے 2.3 ملین افراد میں سے تقریباً 85 فیصد گھروں سے بے دخل ہو گئے ہیں جو زمینی حملوں سے بچنے کے لیے متعدد بار علاقے میں ادھر سے ادھر بھاگے ہیں۔

جنگ کے دوران اسرائیل کے اندر اور جنوبی لبنان میں بھی ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔اس جارحیت نے غزہ میں وسیع پیمانے پر انسانی بحران پیدا کیا ہے۔ بھوک کی پیمائش کرنے والی سرکردہ اتھارٹی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پورا علاقہ قحط کے انتہائی خطرے سے دوچار ہے اور 495,000 سے زیادہ افراد جو آبادی کے پانچویں حصے سے زیادہ ہیں، کو آئندہ مہینوں میں بھوک کی شدید ترین سطح کا سامنا ہونے کا امکان ہے۔

صفائی کا نظام تباہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے بے گھر خاندانوں سے کھچاکھچ بھری خیمہ بستیوں میں سیوریج کے تالاب اور کچرے کے ڈھیر لگ گئے ہیں۔جنگ کے دوران ہونے والے نقصانات کی پیمائش کرنے والے ماہرین کوری شیر اور جیمن وان ڈین ہویک کے سیٹلائٹ ڈیٹا کے تجزیئے کے مطابق امکان ہے کہ اسرائیلی حملوں میں تین جولائی تک غزہ کے تمام ڈھانچے کے 59 فیصد کو نقصان پہنچا یا یہ تباہ ہو گیا جس میں شمالی غزہ کی 70 فیصد عمارات شامل ہیں۔

جنگ میں ہمسایہ ملک لبنان بھی وسیع پیمانے پر مت?ثر ہوا ہے۔ اس کی جانب 500 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں حزب اللہ کے 350 اور دیگر گروپوں کے 50 ارکان شامل ہیں جبکہ باقی عام شہری ہیں۔ اسرائیل میں 22 فوجی اور 24 عام شہری مارے گئے ہیں۔

a3w
a3w