قومی سیاست میں نائیڈو کو بادشاہ گرکا کردار ادا کرنیکا پھر موقع
نارا چندرا بابو نائیڈو بادشاہ گر (کنگ میکر) کا رول ادا کرنے کیلئے ایک بار پھر قومی سیاست میں واپس آئے ہیں۔ نائیڈو کو یہ کردار ادا کرنے کیلئے ہمیشہ لطف آیا ہے۔

امراوتی: نارا چندرا بابو نائیڈو بادشاہ گر (کنگ میکر) کا رول ادا کرنے کیلئے ایک بار پھر قومی سیاست میں واپس آئے ہیں۔ نائیڈو کو یہ کردار ادا کرنے کیلئے ہمیشہ لطف آیا ہے۔
تقریباً2دہائیوں کے وقفہ کے بعد نائیڈؤ آج میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں کیونکہ ان کی سیاسی جماعت ٹی ڈی پی کی تائید سے ہی بی جے پی تیسری بار مرکز میں حکومت تشکیل دینے جارہی ہے۔
2019 میں وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے ہاتھوں کراری شکست کے بعد 5 سال تک اقتدار سے محرومی کے دوران نائیڈؤ کو اپنے سیاسی کیرئیر کے بڑے بحران کا سامنا رہا مگر اس دوران نائیڈو ایک نادر الوجود (فیونیکس) کی طرح اچانک ابھر کر سامنے آئے ہیں۔74 سالہ معمر سیاست داں نائیڈو اب بادشاہ گر کارول ادا کرنے کی تیاری میں ہیں۔
وہ، یہ کردار2014 میں ادا کرنے سے محروم رہے تھے کیونکہ اس وقت بی جے پی کو اپنے بل بوتے پر اکثریت ملی تھی۔ آندھرا پردیش اسمبلی کے انتخابات میں شاندار کامیابی درج کراتے ہوئے چندرا بابو نائیڈو جو اب چوتھی بار چیف منسٹر بننے جارہے ہیں، بلکہ وہ 16 ایم پیز کے ساتھ مرکز میں بھی بی جے پی کی زیر قیادت، این ڈی اے حکومت کی تشکیل میں بادشاہ گر کا رول کرنے کیلئے آگے دیکھ رہے ہیں۔
ٹی ڈی پی کے ساتھ جنتادل (یو) بھی مخلوط حکومت کو سہارا دے رہی ہے۔ سخت سودے بازی میں ماہرچندرا بابو نائیڈو، چند اہم قلمدان اور اپنی ریاست کیلئے خصوصی موقف کا مطالبہ پیش کرسکتے ہیں۔ اے پی تنظیم جدید ایکٹ2024 میں آندھرا پردیش کو خصوصی موقف دینے کا وعدہ کیاگیا تھا۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا مانناہے کہ کنگ میکر کا رول ادا کرنے کیلئے نائیڈو کو شائد اس سے بہتر وقت نہیں آیا ہوگا کیونکہ معاشی طور پر بدحال ریاست اے پی کو مالی طور پر دوبارہ مستحکم بنانے کیلئے مرکز کے دست شفقت کی ضرورت رہے گی۔ علاوہ ازیں ٹی ڈی پی کے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے، صدر مقام امراوتی کی تعمیر اور پولاورم پروجیکٹ کے زیرالتواء کاموں کے اہداف کی تکمیل کیلئے نائیڈو کو مرکزکے تعاون کی ضرورت رہے گی۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ 175 رکنی اسمبلی میں 135 ارکان رکھنے والی تلگودیشم پارٹی کو اپنی حکومت کی بقا کیلئے جنا سینا، بی جے پی کی تائید کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔ ریاست کے مخصوص مسائل حل کرنے کیلئے تلگودیشم پارٹی کے سربراہ کے پاس وزیر اعظم نریندر مودی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت پر وقتاً فوقتاً دباؤ ڈالتے رہنے کی گنجائش رہے گی۔
2019 کے الیکشن میں شکست کے بعد نائیڈؤ قومی سیاست میں اپنی اہمیت کھوچکے تھے مگربعد میں وہ بی جے پی کی طرف دوبارہ دیکھنے لگے جبکہ بی جے پی نے کہدیا تھا کہ نائیڈو کیلئے این ڈی اے کے در وازے ہمیشہ ہمیشہ بند کردئیے گئے بالاآخر بی جے پی نے ٹی ڈی پی سربراہ پر بھروسہ کرتے ہوئے انہیں این ڈی اے میں دوبارہ شامل کرلیا۔
ٹی ڈی پی کی زیر قیادت اتحاد نے مخالف حکومت لہر کے ذریعہ حکمراں جماعت وائی ایس آر سی پی کو شکست دی ہے۔ نئی اقتصادی اصلاحات کے پوسٹر بوائے، ایک صلاح کار اور فنی اصلاحات کے قائد کے طور پر نارا چندرا بابو نائیڈو نے اپنے نظریات سے قطع نظر مرکز میں کسی بھی حکومت سازی میں اپنا کردار بخوبی نبھا یا ہے۔
قومی سیاست میں وہ،1996 کے بعد اپنا رول ادا کرنے لگے جبکہ انہیں یونائیڈ فرنٹ محاذ کا کنوینر بنایا گیا تھا 1999میں حکومت کے خلاف تیسرے محاذ کی تشکیل کیلئے انہوں نے علاقائی جماعتوں کو قریب کرنا شروع کیا تھا۔ این ڈی اے میں بھی انہوں نے ایسا ہی رول ادا کیا تھا۔
چند لوگ نائیڈو کو چالاک سیاست داں بتاتے ہیں تو چند، ان پر موقعہ پرست قائد کا الزام عائد کرتے ہیں۔2009 میں نائیڈو، اقتدار پر واپس ہونے میں ناکام رہے۔ کانگریس نے اقتدار پر ایک بار پھر قبضہ کرلیاتھا۔ 2014 میں نریندر مودی بی جے پی کے وزارت عظمی کے امیدوار کے طور پر ابھر نے لگے تک نائیڈو کو اپنی سیاسی قسمت دوبارہ جگانے کا موقع ہاتھ آیا۔
انہوں نے نہ صرف این ڈی اے میں شامل ہوگئے بلکہ مودی کے ساتھ انتخابی مہم چلائی اور منقسم اے پی میں اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ہمیشہ سے کنگ میکر کے کردار سے لطف اندوز ہونے والے قائد چندرا بابو نائیڈو، نئے ماحول میں جہاں نریندر مودی کو مکمل اکثریت حاصل تھی، بے چینی محسوس کرنے لگے۔
وہ ریاست کو خصوصی موقف نہ دینے پر این ڈی اے سے ناطہ توڑ چکے تھے۔ مرکز میں جب کبھی بی جے پی کو مکمل اکثریت ملی تب وہ، بی جے پی سے دور رہیں۔ اب حالات پہلے کے مقابلے مختلف ہیں، بی جے پی کو اکثریت نہیں مل پائی ہے اس لئے نائیڈؤ ایک بار پھر کنگ میکر کارول اداکرنیوالے ہیں۔