مسجد کو ہٹانے کا مقدمہ، متھر ا شاہی عیدگاہ کیس میں انتظامی کمیٹی کی عدالت میں دلیل
شاہی عیدگاہ انتظامی کمیٹی کی وکیلہ نے الٰہ باد ہائی کورٹ میں دلیل دی کہ متھرا میں کرشنا جنم بھومی مندر سے متصل مسجد کو ”ہٹانے“ کی درخواست کا مقدمہ از روئے قانون تحدید ممنوع ہے۔
الٰہ آباد: شاہی عیدگاہ انتظامی کمیٹی کی وکیلہ نے الٰہ باد ہائی کورٹ میں دلیل دی کہ متھرا میں کرشنا جنم بھومی مندر سے متصل مسجد کو ”ہٹانے“ کی درخواست کا مقدمہ از روئے قانون تحدید ممنوع ہے۔
قانون تحدید‘ قانونی حل طلب کرنے ایک مخصوص مدت کا تعین کرتا ہے۔ مسلم فریق کی طرف سے پیش ہونے والی وکیلہ تسلیمہ عزیز احمدی نے عدالت کو بتایا کہ کیس کے فریقین کے درمیان 12/ اکتوبر1968ء کو سمجھوتہ ہوا جس کی توثیق 1974ء میں دیوانی مقدمہ کے فیصلے میں ہوئی۔
اس سمجھوتہ کو چیلنج کرنے کی مقررہ حد تین سال ہے،مگر یہ مقدمہ 2020ء میں داخل کیا گیا لہٰذا موجودہ مقدمہ‘ ازروئے قانون تحدید ممنوع ہے۔ ہائی کورٹ کو یہ اطلاع بھی دی گئی کہ یہ مقدمہ شاہی عیدگاہ ڈھانچہ کو ہٹانے اور مندر کی بحالی اور مستقل احکام کے بعد قبضے کے لیے دائر کیا گیا۔
مقدمہ میں کی گئی درخواست ظاہر کرتی ہے کہ وہاں مسجد کا ڈھانچہ ہے اور یہ انتظامی کمیٹی کے زیرقبضہ ہے۔ اس طرح وقف جائیداد پر سوال/تنازعہ اٹھایا گیا، لہٰذا یہاں وقف قانون کا اطلاق ہوتا ہے اور ایسی صورت میں یہ مقدمہ دیوانی عدالت کے نہیں وقف ٹریبونل کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
“ دلائل کی سماعت کے بعد ہائی کورٹ نے شاہی عیدگاہ مسجد کو ”ہٹانے“ کے مقدمہ کے قابل سماعت ہونے سے متعلق درخواست کی سماعت کی اگلی تاریخ13/ مارچ مقرر کی۔ شاہی عیدگاہ مسجد کے تعلق سے ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ یہ کٹرا کیشور دیو مندر کی 13.37 ایکڑ اراضی پر تعمیر کی گئی۔
گزشتہ سال مئی میں ہائی کورٹ نے سری کرشنا جنم بھومی۔ شاہی عیدگاہ مسجد تنازعہ سے متعلق تمام 15کیسس اپنے یہاں منتقل کرلیے تھے۔