شمالی بھارت

بہار میں اسدالدین اویسی کا تیسرا محاذ یا پپو یادو کا چیلنج؟ — سیمانچل کی سیاست میں نئی گرمی

دوسری طرف، یہ بھی قیاس کیا جا رہا ہے کہ کانگریس پپو یادو کو مہاگٹھ بندھن کے اندر دباؤ کی سیاست کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ وہ اکثر ایسی باتیں کرتے ہیں جو راجد کو ناگوار گزرتی ہیں لیکن کانگریس ان کی تردید نہیں کرتی۔ اس سے لگتا ہے کہ پپو یادو کو اندرونی طور پر پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔

پٹنہ: بہار کے سیمانچل علاقے کی سیاست میں ایک بار پھر گہما گہمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (AIMIM) کے ریاستی صدر محمد اخترالایمان کی چہارشنبہ کے روز کئے گئے اس اعلان نے سیاسی درجہ حرارت بڑھا دیا ہے کہ ان کی پارٹی ریاست میں تیسرا محاذ بنا کر انتخابات لڑے گی۔

متعلقہ خبریں
رکن اسمبلی ماجد حسین اور فیروز خان کے خلاف کارروائی کا انتباہ
انسانی حقوق کونسل کے لیے 18نئے رکن ممالک کا انتخاب
مسلمان اگر عزت کی زندگی چاہتے ہو تو پی ڈی ایم اتحاد کا ساتھ دیں: اویسی
پاکستان اصل مسئلہ نہیں: غلام نبی آزاد
اسدالدین اویسی کا کووڈ وبا کے تباہ کن اثرات کی طرف اشارہ

یہ اعلان اس لیے اہم سمجھا جا رہا ہے کیونکہ AIMIM کا اثر و رسوخ بہار کے دیگر حصوں کے مقابلے سیمانچل میں خاصا مضبوط ہے۔ دراصل، اویسی اور ان کی پارٹی کیلئے مہاگٹھ بندھن کے دروازے شروع سے ہی بند تھے۔ دو دن قبل اویسی نے تیجسوی یادو پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے انہیں بالواسطہ طور پر ’’شیطان‘‘ کہا تھا، جس کے بعد کسی بھی اتحاد کی امید تقریباً ختم ہو گئی تھی۔

اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا کانگریس کے اتحادی اور پورنیہ کے آزاد رکن پارلیمان پپو یادو سیمانچل میں AIMIM سے ہونے والے نقصان کو روک پائیں گے؟ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مسلم ووٹرز میں پپو یادو کی اچھی مقبولیت ہے، جو ان کی لوک سبھا میں جیت کی ایک بڑی وجہ رہی۔ تاہم، یہ تب ہی ممکن ہے جب پپو یادو پوری مضبوطی سے کانگریس اور مہاگٹھ بندھن کے ساتھ کھڑے رہیں۔ اگر ٹکٹ تقسیم کے دوران ان کی سیاسی خواہشات پوری نہ ہوئیں، تو ان کے الگ راستہ اختیار کرنے کا امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔

پپو یادو خود کو ہمیشہ "دل سے کانگریسی” بتاتے رہے ہیں، جبکہ ان کی اہلیہ رنجیت رنجن کانگریس کی راجیہ سبھا ممبر ہیں۔ گزشتہ کچھ مہینوں میں پپو یادو بارہا کانگریس کیلئے اپنی محبت کا اظہار کرتے رہے، مگر اکثر ان کی باتوں کو نظرانداز کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ تیجسوی یادو کے دباؤ کی وجہ سے کانگریس انہیں آگے نہیں بڑھنے دیتی رہی۔ البتہ 26 ستمبر کو موتیہاری میں پرینکا گاندھی کی ریلی میں انہیں اسٹیج پر جگہ ملنا ایک نیا موڑ سمجھا جا رہا ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق پپو یادو کا مزاج باغیانہ ہے اور ان کی سیاسی امنگیں بلند۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر پارٹیوں سے الگ ہو جاتے ہیں — چاہے وہ راشٹریہ جنتا دل ہو یا سماجوادی پارٹی۔ اس بار بھی اگر کانگریس کے ساتھ ان کی خواہشات پوری نہ ہوئیں تو وہ کوئی نیا سیاسی قدم اٹھا سکتے ہیں۔

دوسری طرف، یہ بھی قیاس کیا جا رہا ہے کہ کانگریس پپو یادو کو مہاگٹھ بندھن کے اندر دباؤ کی سیاست کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ وہ اکثر ایسی باتیں کرتے ہیں جو ناگوار گزرتی ہیں لیکن کانگریس ان کی تردید نہیں کرتی۔ اس سے لگتا ہے کہ پپو یادو کو اندرونی طور پر پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ سیمانچل کے مسلم ووٹرز کے سامنے اگر اویسی اور پپو یادو دونوں بطور متبادل ابھرتے ہیں تو ترجیح کس کو ملے گی۔ اویسی کی مقبولیت مذہبی اور نظریاتی بنیاد پر ہے، جب کہ پپو یادو کی سیاست مقامی مسائل اور ترقی پر مرکوز رہتی ہے۔ تاہم، بدلتے سیاسی حالات، وقف بل، ایس آئی آر اور دراندازی جیسے مسائل کے تناظر میں ووٹوں کی تقسیم این ڈی اے کے حق میں بھی جا سکتی ہے۔

یعنی، سیمانچل میں اس بار کی جنگ صرف اویسی اور پپو یادو کے درمیان نہیں بلکہ سیاسی اثر، مسلم ووٹ بینک اور مستقبل کی قیادت کے درمیان ہے۔ یہ انتخاب بہار کی سیاست کا رخ بدل سکتا ہے۔