بنگلہ دیشی پولیس جوابی کارروائی کے خوف سے فیلڈ ڈیوٹی کرنے کو تیار نہیں
بنگلہ دیش میں طلبا کی قیادت میں بغاوت اور شیخ حسینہ انتظامیہ کی برطرفی کے چھ دن بعد بھی پولیس ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اپنا کام دوبارہ شروع نہیں کر پائی ہے۔ پورے ہفتہ ملک بھر میں جھڑپوں کے درمیان افراتفری اور ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہا۔
ڈھاکہ: بنگلہ دیش میں طلبا کی قیادت میں بغاوت اور شیخ حسینہ انتظامیہ کی برطرفی کے چھ دن بعد بھی پولیس ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اپنا کام دوبارہ شروع نہیں کر پائی ہے۔ پورے ہفتہ ملک بھر میں جھڑپوں کے درمیان افراتفری اور ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہا۔
پولیس ہیڈ کوارٹر نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ اتوار تک، جنوبی ایشیائی ملک کے 639 تھانوں میں سے 599 نے مسلح افواج اور انصار کے ارکان کی مدد سے ‘جزوی طور پر’ دوبارہ کام شروع کر دیا ہے،
میڈیا رپورٹس میں پہلے کہا گیا تھا کہ جو افسران پولیس اسٹیشنوں میں ڈیوٹی کے لیے رپورٹ کرتے تھے، انہوں نے فوج کے تعاون سے اپنے کام کا بوجھ کم کیا ہے۔
‘دی ڈیلی اسٹار’ کے مطابق کچھ تھانے صرف عمومی ریکارڈ کو برقرار رکھتے تھے اور اندرونی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ دیگر تھانے دن بھر خالی رہتے ہیں اور افسران حاضری لگانے کے بعد ہی چلے جاتے ہیں۔
ایک انسپکٹر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، "ہم اپنے اسٹیشنوں پر رپورٹنگ کر رہے ہیں لیکن عوام کی طرف سے پرتشدد انتقام کے خوف سے میدان میں نہیں جا رہے، کیونکہ ہمارے بہت سے ساتھیوں نے اندھا دھند مظاہرین کو بغاوت کے دوران گولیوں سے بھون دیا ہے۔ ”
نئی تعینات ہونے والی عبوری حکومت کے مشیر برائے امور داخلہ بریگیڈیئر جنرل (ریٹائرڈ) ایم سخاوت حسین نے اتوار کے روز پولیس اہلکاروں کے لیے اپنے متعلقہ تھانوں میں رپورٹ کرنے کے لیے جمعرات کی آخری تاریخ مقرر کی۔
انہوں نے کہا کہ جمعرات تک، اگر آپ اپنی تفویض کردہ فورس میں شامل نہیں ہوتے ہیں، تو ہم فرض کریں گے کہ آپ مزید فورس میں نہیں رہنا چاہتے۔ جمعرات تک اپنے اسٹیشنوں پر رپورٹ کریں۔