تلنگانہ

پسماندہ طبقات کی بھلائی اور ترقی کے لئے قومی جماعتوں کی غیر سنجیدگی باعث تشویش، تلنگانہ جاگروتی کی صدر کا بی سی کمیشن سے مطالبہ

تلنگانہ جاگروتی کی صدر اور رکن قانون ساز کونسل بی آر ایس کی کلواکنٹلہ کویتا نے پسماندہ طبقات (بی سیز) کی فلاح و بہبود اور ترقی کے معاملہ میں قومی جماعتوں کے غیر سنجیدہ رویے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

حیدرآباد: تلنگانہ جاگروتی کی صدر اور رکن قانون ساز کونسل بی آر ایس کی کلواکنٹلہ کویتا نے پسماندہ طبقات (بی سیز) کی فلاح و بہبود اور ترقی کے معاملہ میں قومی جماعتوں کے غیر سنجیدہ رویے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کویتا نے آج مانصاحب ٹینک میں واقع بی سی کمیشن کے دفتر میں کمیشن کے صدر نشین وینکٹیشور راؤ سے ملاقات کی اور انہیں 35 صفحات پر مشتمل ایک جامع رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں پسماندہ طبقات کے آئینی حقوق کی فراہمی اور ان کی ترقی کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

متعلقہ خبریں
شراب پالیسی کیس: کجریوال، سسوڈیا اور کویتا کی عدالتی تحویل میں توسیع
کویتا کی عدالتی تحویل میں توسیع
کویتا، 23مارچ تک ای ڈی کی تحویل میں (ویڈیو)
کویتا، پیش نہیں ہورہی ہیں سپریم کورٹ میں ای ڈی کا انکشاف
سپریم کورٹ کاحکم طاقتور پیغام: کے کویتا

کویتہ نے ریاست تلنگانہ میں کے سی آر حکومت کی پسماندہ طبقات کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے چندرشیکھر راؤ نے ہمیشہ پسماندہ طبقات کی ترقی کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھا ہے۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ قومی جماعتیں بالخصوص کانگریس اور بی جے پی نہ صرف پسماندہ طبقات کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کرتی رہیں بلکہ ان کی فلاح و بہبود کے وعدوں کو بھی پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

کویتہ نے کانگریس پارٹی سے سوال کیا کہ جب کانگریس پارٹی ملک میں طویل عرصے تک برسر اقتدار رہی، تو اس نے ذات پات پر مبنی مردم شماری کیوں نہیں کرائی؟ اور کرناٹک میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کی تفصیلات ابھی تک منظر عام پر کیوں نہیں آئی؟ بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارٹی نے ذات پات پر مبنی مردم شماری کے خلاف حلف نامہ داخل کیا، جو بی سیز، ایس سیز اور ایس ٹیز کے بنیادی حقوق کی نفی کے مترادف ہے۔ انہوں نے بی جے پی کو پسماندہ طبقات کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا اور کہا کہ بی جے پی کے ڈی این اے میں بی سیز، ایس سیز اور ایس ٹیز مخالف سوچ پائی جاتی ہے۔

کویتہ نے کانگریس کو کاماریڈی اعلامیہ میں کئے گئے وعدوں کی یاد دہانی بھی کرائی، جس میں مقامی اداروں میں بی سیز کے لئے 42 فیصد تحفظات کا وعدہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کانگریس حکومت اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانا چاہئے اور ذات پات کی مردم شماری کے معاملہ میں اپنا موقف واضح کرے۔

بی سی کمیشن کو ایک آزاد اور موثر طریقہ کار کے تحت کام کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، کویتا نے کہا کہ کمیشن کی سفارشات سیاسی مقاصد تک محدود نہ رہیں بلکہ ان میں بی سیز کے درپیش مسائل کی یکسوئی پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بی سی کمیشن کو پسماندہ طبقات کے مسائل کی حل کے لیے عملی اقدامات کی طرف توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

کویتہ نے بی سی کمیشن کے قیام میں تاخیر اور حیدرآباد اور رنگاریڈی اضلاع میں نامکمل گھریلو سروے پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت کو ذات پات کی مردم شماری کے حوالے سے شکوک و شبہات کو دور کرنا چاہیے اور اپنے موقف کو واضح کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پسماندہ طبقات کے آئینی اور سماجی حقوق کی بحالی کے لئے عملی اقدامات ضروری ہیں اور مزید ناانصافی قابل قبول نہیں۔ کویتا نے قومی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ محض وعدوں پر اکتفا نہ کریں بلکہ پسماندہ طبقات کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔