حیدرآباد

موت‘زندگی، بیماری و تندرستی‘ مصیبت و راحت سب کچھ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے:مولانا حافظ پیر شبیر احمد

البتہ یہ ممکن ہے کہ اس مہینہ کو ”تیرہ تیزی“ کا نام اس لیے دے دیا گیا ہو کہ حضور اقدس صلوسلم عل کا مرضِ وفات جو اس مہینے میں شروع ہوا تھا، وہ مشہور روایات کے مطابق تیرہ دن تک مسلسل جاری رہا تھا، اس کے بعد آپ صلوسلم عل کا وصال مبارک ہوگیا تھا۔

حیدرآباد: مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعےۃ علماء تلنگانہ وآندھراپردیش نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ زمانہ جاہلیت میں عرب کے اکثر و بیشتر لوگ علم و فضل سے ناواقف، دور بینی اور شائستگی سے دور اور تہذیب و تمدن سے یکسر عاری اور تہی دامن تھے۔

متعلقہ خبریں
رئیل اسٹیٹ ونچرکی آڑ میں چلکور کی قطب شاہی مسجد کو شہید کردیاگیا: حافظ پیر شبیر احمد
جمعہ کی نماز اسلام کی اجتماعیت کا عظیم الشان اظہار ہے: مولانا حافظ پیر شبیر احمد
میں دھونی بننے کیلئے تیار ہوں: ہاردک پانڈیا

 جہالت و ضلالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں نے ان میں بت پرستی رائج کردی تھی اور بت پرستی نے انہیں توہُّم پرست بنادیا تھا، جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی صحیح ہستی کا اقرار، جزاء و سزاء کا تصور اور نیک و بد اعمال پر اچھے اور برے نتیجے کا مرتب ہونا ان کے نزدیک تمسخر اور استہزاء کی باتیں بن کر رہ گئی تھیں۔

جہالت پرستی اور توہُّم پرستی نے ان کے عقائد و اعمال کو ایسا بگاڑ دیا تھا کہ عقل بھی اس پر خندہ زن تھی۔شرک و بدعت اور کفر و ضلالت کے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے اور آخری نبی حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم  کو مبعوث فرمایا اور آپ کے ذریعہ سے ان کی جہالت کے اندھیروں کو ختم فرمایا۔

”توہُّم پرستی“ کے بجائے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں حقیقت شناسی کی تعلیم دی، شرک کی جگہ توحید اور بت پرستی کی جگہ اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ کی نورانی تعلیمات عنایت فرمائیں اور عقائد و اعمال میں ان کے لیے ایسا واضح اور صاف راستہ متعین فرمایا جو ان کو جہنم کے اندھیرے اور تاریکی سے نکال کر جنت کی روشنی کی طرف لے جائے۔

لیکن آج کل مسلمانوں میں اسلامی تعلیمات کی کمی اور یورپ و مغرب کی نت نئی تہذیب و ثقافت اور اس کا کلچر قبول کرنے کی وجہ سے ہمارے عام مسلمانوں میں کچھ ایسے خیالات نے جنم لے رکھا ہے کہ جن کا دین و شریعت اور مذہبِ اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں، اسی جہالت کے نتیجے میں آج بھی زمانہ جاہلیت قبل از اسلام کے ساتھ ملتی جلتی مختلف توہُّم پرستیاں ماہِ صفرکے بارے میں بھی پائی جاتی ہیں۔

چنانچہ بعض لوگوں اور خاص طور پر خواتین نے تو اس مہینے کا نام ہی تیرہ تیزی رکھ دیا ہے اور اس مہینے کو اپنے گمان میں تیزی کا مہینہ سمجھ لیا ہے۔ اس کی حتمی اور قطعی وجہ تو معلوم نہیں ہوسکی کہ اس مہینے کو تیرہ تیزی کا مہینہ کیوں کہا جاتا ہے؟

البتہ یہ ممکن ہے کہ اس مہینہ کو ”تیرہ تیزی“ کا نام اس لیے دے دیا گیا ہو کہ حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم کا مرضِ وفات جو اس مہینے میں شروع ہوا تھا، وہ مشہور روایات کے مطابق تیرہ دن تک مسلسل جاری رہا تھا، اس کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال مبارک ہوگیا تھا۔

اس سے جہلاء نے یہ سمجھ لیا ہوگا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ان تیرہ دنوں میں مرض کی شدت اور تیزی کی وجہ سے یہ مہینہ سب کے حق میں شدید، بھاری اور تیز ہو گیا ہے۔ اگر واقعتاً یہی بات ہے تو یہ سراسر”جہالت“ اور”توہُّم پرستی“ کا شاخسانہ ہے، جس کی کوئی حقیقت نہیں اور ایسا عقیدہ رکھنا سخت گناہ ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس مہینے کے ابتدائی تیرہ روز خاص طور پر بہت زیادہ سخت اور تیز یا بھاری ہوتے ہیں، اسی وجہ سے یہ لوگ صفر کے مہینہ کی پہلی تاریخ سے لے کر تیرہ تاریخ تک کے دنوں کو خاص طور پر منحوس سمجھتے ہیں اور بعض جگہ اس مہینے کی تیرہ تاریخ کو چنے اُبال کر یا چوری بناکر تقسیم کرتے ہیں، تاکہ بلائیں ٹل جائیں۔

اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان لوگوں کے ابتدائی تیرہ دنوں سے متعلق اس غلط خیال کی وجہ سے ہی اس مہینہ کو ”تیرہ تیزی“ کا مہینہ کہا جاتا ہو، اگر ایسا ہے تو یہ بھی شریعت پر زیادتی ہے۔

حضرت جابر  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ: ”ماہِ صفر“ میں بیماری، نحوست اور بھوت پریت وغیرہ کا کوئی نزول نہیں ہوتا۔

در اصل زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا اعتقاد یہ تھا کہ متعدی مرض اور چھوت کی بیماری ہرحال میں دوسرے کو لگتی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کوئی دخل نہیں ہے، یعنی وہ بذات خود بیماری کے دوسرے کی طرف متعدی ہونے کو موثر بالذات سمجھتے تھے اور بعض بیماریوں میں طبعی طور پر لازمی خاصیت کے قائل تھے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باطل عقیدے کی اصلاح فرمائی۔ خوب سمجھ لینا چاہیے کہ موت و زندگی، بیماری و تندرستی اور مصیبت و راحت یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اگر ایک بیماری دس آدمیوں کو لگتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے لگتی ہے، بیماری میں ہرگز یہ طاقت نہیں کہ وہ بغیر حکمِ الٰہی کے کسی دوسرے کو لگ جائے۔