بھارتسوشیل میڈیا
ٹرینڈنگ

وضاحت: الیکٹورل بانڈس کیا ہیں؟ پڑھئے پوری تفصیل

اسکیم کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ سیاسی جماعتوں کو موصولہ بانڈس (رقم) کی تفصیل اور بانڈس عطیہ کرنے والوں کے نام اور پتوں کا انکشاف کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔

حیدرآباد: ایک تاریخی فیصلے میں جس نے مودی حکومت کو بڑا دھچکا پہنچایا، سپریم کورٹ نے جمعرات کو سیاسی فنڈنگ کے لئے الیکٹورل بانڈ اسکیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ آزادی اظہار رائے کے آئینی حق کے ساتھ ساتھ معلومات کے حق کی بھی خلاف ورزی کرتا ہے۔

متعلقہ خبریں
مودی دور میں سرمایہ کاری اور عام کھپت کا ڈبل انجن پٹری سے اتر گیا: کانگریس
ملک میں بے روزگاری سے بڑا کوئی مسئلہ نہیں: ملیکارجن کھرگے
الیکٹورل بانڈ اسکیم سے متعلق فیصلہ پر نظرثانی کی درخواست
تعلیم کیلئے مخصوص اسکول کے انتخاب کا حق نہیں: دہلی ہائی کورٹ
ملزم کی موت، ورثاء سےجرمانہ وصول کیا جاسکتا ہے: ہائیکورٹ

لوک سبھا انتخابات سے پہلے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) کو حکم دیا کہ وہ الیکشن کمیشن سامنے 6 سال پرانی اسکیم کے ذریعہ تعاون کرنے والوں کے ناموں کا انکشاف کرے۔

چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے ہدایت دی کہ ایس بی آئی کو سیاسی جماعتوں کے ذریعے کیش کردہ ہر انتخابی بانڈ کی تفصیلات کا انکشاف کرنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ معلومات میں انکیشمنٹ کی تاریخ اور بانڈس کی مالیت کی تفصیل بھی شامل ہونی چاہئے۔ یہ معلومات 6 مارچ تک الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرانے ہدایت دی گئی ہے۔

الیکٹورل بانڈس دراصل کیا ہیں؟

انتخابی بانڈ سیاسی جماعتوں کو عطیہ دینے کا ایک مالیاتی ذریعہ ہے جیسا کہ اس وقت کے وزیر فینانس نے پہلی بار مرکزی بجٹ 2017-18 میں اس کا اعلان کیا تھا۔

الیکٹورل بانڈ اسکیم 2018 کے مطابق انتخابی بانڈ ایک پرومسری نوٹ کی نوعیت میں جاری کیا جانے والا بانڈ ہے جو اپنے آپ میں مالیتی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔

ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) اس بارے میں کہتا ہے کہ بیئرر انسٹرومنٹ (الیکٹورل بانڈ) وہ ہوتا ہے جس میں خریدار یا وصول کنندہ کا نام نہیں ہوتا، اس کی ملکیت کی کوئی معلومات درج نہیں ہوتیں اور بانڈ کے حامل (یعنی سیاسی پارٹی) کو اس کا مالک تصور کیا جاتا ہے۔

یہ اسکیم ان افراد کو – جو ہندوستان کے شہری ہیں – اور گھریلو کمپنیوں کو – ان بانڈز کو عطیہ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ یہ بانڈس کرنسی نوٹوں کی طرح ایک ہزار روپے سے لے کر ایک کروڑ روپے تک کے ہوتے ہیں۔ اسے کوئی بھی خرید کر سیاسی جماعتوں کو عطیہ کرسکتا ہے۔ سیاسی جماعت بینک سے اسے رقم میں تبدیل کرالیتی ہے جیسے ہم چیک استعمال کرتے ہیں۔ 

جب سیاسی جماعتوں کو کسی کی جانب سے بانڈس کا عطیہ موصول ہوتا تو ضروری ہے کہ 15 دن کے اندر انہیں انکیش کروالیا جائے۔ اسکیم کے تحت کسی کو بھی انفرادی طور پر یا گروپ کی شکل میں بانڈ خریدنے کی آزادی تھی تاکہ سیاسی جماعتوں کو عطیہ دے سکیں۔

اس کے علاوہ انتخابی بانڈز کی تعداد پر کوئی حد موجود نہیں ہے۔ کوئی بھی یا شخص کارپوریٹ ادارے کتنی بھی تعداد میں (بے حساب) بانڈس خرید کر سیاسی پارٹیوں کو عطیہ کرسکتے ہیں۔ 

جو بھی بانڈس 15 دن کی میعاد کے اندر کیش نہیں کرائے جاتے، انہیں مجاز بینک کے ذریعے وزیر اعظم کے قومی ریلیف فنڈ میں جمع کرادیا جاتا۔

اسکیم کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ سیاسی جماعتوں کو موصولہ بانڈس (رقم) کی تفصیل اور بانڈس عطیہ کرنے والوں کے نام اور پتوں کا انکشاف کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔

اس اسکیم پر اس کے نفاذ کے وقت سے ہی جہد کاروں اور سیاسی مصلحین کی جانب سے سیاسی پارٹیوں کے مالی معاملات میں شفافیت پر سوال اٹھایا جاتا رہا ہے۔

آر ٹی آئی کی خلاف ورزی

سپریم کورٹ نے آج واضح طور پر کہا کہ الیکٹورل بانڈس کی اسکیم رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ (قانون حق معلومات)  کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔

اگرچہ انتخابی بانڈ شہریوں کی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کرتے لیکن حکومت، اسٹیٹ بینک آف انڈیا (SBI) سے ڈیٹا مانگ کر ہمیشہ ڈونر کی تفصیلات تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔

الیکشن کمیشن آف انڈیا نے کہا تھا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخابی بانڈ کے ذریعے موصول ہونے والا کوئی بھی عطیہ رپورٹنگ (صحافت) کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے اور یہ بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اسے واپس لینے کی ضرورت ہے۔