دہلی

بلڈوزر کاروائی پر روک لگانے سے سپریم کورٹ کا انکار

سپریم کورٹ‘ مسلم تنظیم جمعیت علمائے ہند کی درخواست کی سماعت کررہی تھی جس نے حکومت ِ اترپردیش اور دیگر ریاستوں کو یہ ہدایت دینے کی گزارش کی تھی کہ حالیہ تشدد کے مبینہ ملزمین کی جائیدادیں ڈھانے کی سلسلہ روک دیا جائے۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے چہارشنبہ کے دن ملک کی مختلف ریاستوں میں پرتشدد احتجاج کے ملزمین کی جائیدادوں کا انہدام روکنے کی عبوری ہدایت جاری کرنے سے انکار کردیا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے حیرت ظاہر کی کہ ہم یہ حکم کیسے جاری کرسکتے ہیں جبکہ تعمیر غیرقانونی ہوسکتی ہے اور کارپوریشن یا کونسل اس کے خلاف کارروائی کی مجاز ہوسکتی ہے۔

جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس پی ایس نرسمہاپر مشتمل بنچ نے کہا کہ کوئی بھی اس سے اختلاف نہیں کرسکتا کہ قانون کی حکمرانی ہونی چاہئے۔ ہم عبوری احکام جاری کردیں تب بھی حکام کو ازروئے قانون کارروائی سے باز نہیں رکھ سکتے۔

 سپریم کورٹ‘ مسلم تنظیم جمعیت علمائے ہند کی درخواست کی سماعت کررہی تھی جس نے حکومت ِ اترپردیش اور دیگر ریاستوں کو یہ ہدایت دینے کی گزارش کی تھی کہ حالیہ تشدد کے مبینہ ملزمین کی جائیدادیں ڈھانے کی سلسلہ روک دیا جائے۔

سینئر وکیل دشینت دوے نے جمعیت کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ انتہائی غیرمعمولی اور سنگین ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ایک اخباری رپورٹ پڑھی ہے کہ آسام میں قتل کے ملزم کا مکان ڈھادیا گیا۔ ہمیں یہ کلچر نہیں چاہئے۔ ججس کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ کے لئے اس کا تصفیہ کردیں۔ کارروائی قانون کے مطابق ہونی چاہئے۔

 میونسپل قوانین کا فائدہ اٹھاکر ملزمین کے مکانات نہیں ڈھائے جاسکتے۔ یہ ملک اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ہم وہ ملک ہیں جو قانون سے چلتا ہے اور قانون‘ دستور کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ دشینت دوے نے انہدام کے خلاف عبوری ہدایت چاہی۔ سینئر وکیل نے کہا کہ دیگر لوگوں کے غیرمجاز مکانات نہیں ڈھائے گئے۔

 دیگر فرقوں کے معاملہ میں رعایت کی گئی۔ ایک اور درخواست گزار کے وکیل سی یو سنگھ نے کہا کہ دہلی کی جہانگیرپوری میں جوں کا توں موقف برقرار رکھنے کے احکام کے باوجود ایک شہر کے بعد دوسرے شہر میں انہدام کا وہی طریقہ جاری رکھا گیا۔

 سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے دشینت دوے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں سارے فرقے انڈین ہیں۔ ہم فرقوں کے لحاظ سے مفاد ِ عامہ کی درخواستیں داخل نہیں کرسکتے۔