ٹیکس کے پیسوں سے ہی منتخب نمائندوں کے ٹھاٹ باٹ!
عوامی نمائندوں کوسمجھناچاہئے کہ وہ غریب لوگوں کے ووٹ سے وزیر‘وزیر اعلی بنتے ہیں اورعوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ان کی شان وشوکت ہوتی ہے۔
حیدرآباد: تمام لیڈرغریب اورمجبورعوام کے ووٹ حاصل کرکے عوامی نمائندے منتخب ہوتے ہیں اور پھر عوام سے بے تعلقی پیدا کرلیتے ہیں۔ منتخب امیدوار خودکووی آئی پی سمجھتے ہیں۔
سڑکوں سے پولیس کے سخت حفاظتی انتظامات میں گزرتے ہیں۔ذرائع کے بموجب عوام میں سے ہی ایک عام آدمی انتخابات میں حصہ لیتا ہے اورعوام سے ووٹ ڈالنے کی بھک مانگ کر منتخب ہوتے ہیں اور خودکوبڑا قائد سمجھنے لگتے ہیں۔پھر وہ عوام سے فاصلہ بنانا شروع کرتا ہے۔
جب وہ کوئی وزیر بن جاتا ہے تو غریب عوام ان کے دفتر میں بناپوچھے داخل نہیں ہوسکتے ہیں۔وزیر جب سڑک سے گزرتے ہیں توٹرافک روک دی جاتی ہے۔ پہلے وزیر کوجانے دیاجاتاہے۔
عوام کو ان کے گزرنے کے بعدچھوڑاجاتا ہے اور اس موقع پر انہیں پولیس کی سخت سیکوریٹی دی جاتی ہے۔عام آدمی جوووٹ دیاتھا وہ بھی لائن میں کھڑاہوکر دیکھتے رہتاہے۔
اس طرح سیاسی قائدین کووی آئی پی کادرجہ دیا جاتا ہے جبکہ عوامی نمائندوں کوعوام کے درمیان رہنے چاہئے لیکن جب انتخابات آتے ہیں تب یہ عوامی نمائندے عوام کے درمیان آتے ہیں پھر ووٹ کی بھیک مانگتے ہیں۔
عوامی نمائندوں کوسمجھناچاہئے کہ وہ غریب لوگوں کے ووٹ سے وزیر‘وزیر اعلی بنتے ہیں اورعوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ان کی شان وشوکت ہوتی ہے۔عوام کے پیسوں سے ہی عالشان گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔پھر عوام سے کئے ہوئے وعدوں سے پھر جاتے ہیں۔عوام پرہی ظلم کرتے ہیں۔مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔
اس کے علاوہ ووٹ دینے والوں کے خلاف ہی بھاری چالانات کئے جاتے ہیں اورمقدمات درج کئے جاتے ہیں۔اس کے باوجود عوام پھر وہی پارٹی کوووٹ دیتی ہے تعجب کی بات ہے۔ اب آنے والے انتخابات میں عوام سیاسی قائدین کومزہ چکھاناچاہئے۔اس بار عوام کوکافی سونچھ سمجھ کر انتخابات میں اپنا ووٹ کا استعمال کرنا ہے۔پھر وہی غلطی نہیں کرنی ہے جوپہلے کرچکے ہیں۔