حیدرآباد

جی ایچ ایم سی کو 4کارپوریشنوں میں تقسیم کرنے حکومت کا منصوبہ

آیا حکومت تلنگانہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن (جی ایچ ایم سی) کو چار کارپوریشنوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے؟

حیدرآباد(منصف نیوز بیورو) آیا حکومت تلنگانہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن (جی ایچ ایم سی) کو چار کارپوریشنوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے؟

متعلقہ خبریں
حکومت تمام مخلوعہ جائیدادوں پر تقررات کیلئے پر عزم: سریدھر بابو
فلم ”گیم چینجر“کے اضافی شوز اور ٹکٹ قیمتوں میں اضافہ کی اجازت سے حکومت دستبردار، احکام جاری
پرجاوانی پروگرام کی تاریخ تبدیل
سلائی مشینوں کی تقسیم، اہل عیسائی خواتین سے درخواستیں مطلوب
وزیر سیتا اکا نے بھگدڑواقعہ میں زخمی لڑکے سری تیج کی عیادت کی

اگر ریاستی وزیر آر اینڈ بی کومٹ ریڈی وینکٹ ریڈی کے اس مختصر اعلان پر یقین کیا جائے تو یہ تجویز کانگریس حکومت کے زیر غور ہے۔ یہاں جمعہ کے روز اسوچم اربن انفرا اسٹرکچر کی 2024 سمٹ کے دوران ریاستی وزیر کومٹ ریڈی وینکٹ ریڈی کا یہ جامع،مختصر بیانیہ سامنے آیا ہے۔

سمٹ میں صنعت کار، رئیلٹرس، ماہرین تعلیم اور عہدیدار شریک تھے۔ اس سمٹ سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کے دوران کومٹ ریڈی وینکٹ ریڈی نے اعلان کیا کہ ”الیکشن کے بعد (جی ایچ ایم سی کے ممکنہ انتخابات) جی ایچ ایم سی کو تقسیم کیا جائے گا اور ممکن ہے کہ جی ایچ ایم سی کو چار کارپوریشنوں میں تقسیم کیا جائے گا کیونکہ جی ایچ ایم سی کی آبادی 1.5 کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ریاستی حکومت، جی ایچ ایم سی کو چار کارپوریشنوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ آنے والے انتخابات کے بعد 4 میئرس ہوں گے۔ وزیر کے اس بیان نے ہر ایک کو حیران کردیا ہے تاہم وینکٹ ریڈی نے اس بارے میں تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔ 16/اپریل 2007 میں اس وقت کی حکومت آندھراپردیش نے ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے جی ایچ ایم سی تشکیل دیا تھا۔

اُس وقت کی میونسپل کارپوریشن آف حیدرآباد (ایم سی ایچ) میں 12بلدیات کو ضم کرتے ہوئے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ تقریباً 12 برسوں کے بعد جی ایچ ایم سی کو 6 زونس اور 150 ڈیویژنوں میں تقسیم کیا گیا۔

رواں سال کے مارچ میں چیف منسٹر اے ریونت ریڈی نے عہدیداروں کو ہدایت دی تھی کہ وہ شہری ترقی کے لئے جامع اور مناسب منصوبہ تیار کریں۔ قبل ازیں کومٹ ریڈی وینکٹ ریڈی نے موسیٰ ریور فرنٹ ڈیولپمنٹ پروجیکٹ پر سیاست کرنے پر اپوزیشن بی آر ایس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ بی آر ایس نے اپنے دور حکومت میں موسیٰ ندی کی صفائی کے لئے جے آئی سی اے سے ایک ہزار کروڑ روپئے کا قرض حاصل کیا تھا۔

اب جبکہ وہ اقتدار سے بے دخل ہوچکی ہے‘ اس لئے وہ اس پروجیکٹ کی مخالفت کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود عوام کے مفاد میں حکومت اس پروجیکٹ کو بہر صورت روبہ عمل لائے گی۔

انہوں نے مزید کہا موسیٰ پروجیکٹ کی ڈی پی آر رپورٹ تاحال تیار نہیں کی گئی ہے لیکن ڈی آر ایس اس تعلق سے عوام کو گمراہ کرتے ہوئے یہ کہہ رہی ہے حکومت اس پروجیکٹ پر 1.5 لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔