مہا پنچایت میں نفرت انگیز تقریر، دہلی پولیس کی مداخلت
ہندو توا تنظیم آل انڈیا سناتن فاؤنڈیشن اور ہندو سینا کی جانب سے 31 جولائی کو ہریانہ کے علاقہ نوح میں فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف احتجاج کرنے جنتر منتر پر ایک مہاپنچایت منعقد کی گئی تھی۔
دہلی: اخبار انڈین ایکسپریس میں خبر شائع کی گئی کہ نفرت انگیز تقریر کے واقعات کے پیش نظر دہلی پولیس نے اتوار کے دن ہندوتوا کے ایک پروگرام کو رکوا دیا۔
ہندو توا تنظیم آل انڈیا سناتن فاؤنڈیشن اور ہندو سینا کی جانب سے 31 جولائی کو ہریانہ کے علاقہ نوح میں فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف احتجاج کرنے جنتر منتر پر ایک مہاپنچایت منعقد کی گئی تھی۔
نوح کے فسادات میں 6 افراد ہلاک ہوئے اور پڑوسی گروگرام تک فساد پھیل گیا تھا۔ ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گپتا رکھشا دل کی پنکی چودھری اور داسنا دیوی مندر کے بڑے نرسنگھا نند سرسوتی اس پروگرام (مہاپنچایت) میں شرکت کرنے والوں میں شامل تھے۔
بڑی تعداد میں پولیس کی موجودگی میں 10 بجے یہاں پنچایت کا آغاز ہوا۔ صبح تقریباً 11:50 بجے اس وقت مداخلت کی جب نرسنگھا نند جو اتراکھنڈ کے ٹاؤن ہری دوار میں ایک نفرت انگیز تقریر کیس میں ضمانت پر رہا ہیں، نوح کے فسادات پر تقریر کررہے تھے۔
ہندو توا لیڈر نے تقریر میں کہا کہ ایسی صورتِ حال میں اگر تبدیلی نہ آئے تو ایک غیرہندو شخص وزیر اعظم بنے گا، تب آپ کی اپنی ذاتی زمین نہ رہے گی اور بحر ہند میں غرق ہوں گے۔
نرسنگھا نند نے اپنی تقریر ختم کررہے تھے، دو پولیس عہدیدار ان کے قریب آکر تقریر روکنے کو کہا۔
ڈی انڈین ایکسپریس کی خبر میں کہا گیا کہ مہا پنچایت کے صدر نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے انھیں منتشر ہونے کو کہا، پولیس نے کہا کہ انہوں نے صرف داسنا دیوی مندر کے بڑے پجاری کو ہی وہاں سے جانے کہا تھا۔