عصمت ریزی کی شکار خاتون کا اسقاطِ حمل، سپریم کورٹ کی اجازت
یہ خیال ظاہر کرتے ہوئے کہ شادی بغیر قرارِ حمل ایک تکلیف دہ بات ہے اور اس سے ذہنی بوجھ پڑتا ہے، سپریم کورٹ نے آج عصمت ریزی کی متاثرہ خاتون کو 27 ہفتے کا حمل ساقط کرنے اجازت دی۔

نئی دہلی: یہ خیال ظاہر کرتے ہوئے کہ شادی بغیر قرارِ حمل ایک تکلیف دہ بات ہے اور اس سے ذہنی بوجھ پڑتا ہے، سپریم کورٹ نے آج عصمت ریزی کی متاثرہ خاتون کو 27 ہفتے کا حمل ساقط کرنے اجازت دی۔
عصمت ریزی کی متاثرہ خاتون کی میڈیکل رپورٹ پر غور کرتے ہوئے جسٹس بی وی ناگا رتنا اور جسٹس اجل بھویاں پر مشتمل بنچ نے کہا کہ حمل ساقط کرنے کی درخواست کو مسترد کرنا گجرات ہائی کورٹ کا صحیح فیصلہ نہیں ہے۔
عدالت ِ عظمیٰ نے کہا کہ ہندوستانی سماج میں شادی کے بعد قرارِ حمل نہ صرف میاں بیوی بلکہ خاندان اور دوست احباب کے لیے خوشی کی بات ہے۔
اس کے برعکس بغیر شادی قرارِ حمل ایک تکلیف دہ بات ہے، خصوصیت کے ساتھ جنسی حملہ یا جنسی استحصال ذہنی تکلیف کا سبب ہے، بلکہ حاملہ خاتون کی جسمانی اور ذہنی صحت پر بوجھ ہے۔
بنچ نے مزید کہا کہ جنسی حملہ اور استحصال کے نتیجہ میں حمل کا قرار پانا ایک دوہری تکلیف کا باعث ہے، کیوں کہ ایسا حمل رضاکارانہ یا دانستہ نہیں ہوتا۔
بنچ نے مزید کہا کہ اگر جنین زندہ پایا گیا تو ہاسپٹل کو چاہیے کہ وہ ضروری طبّی امداد جس میں جنین کی زندگی کو یقینی بنانا بھی شامل ہے باہم پہنچائے۔
عدالت ِ عظمیٰ نے ہفتہ کے دن ایک خصوصی اجلاس منعقد کرتے ہوئے مذکورہ خاتون کی درخواست کو زیرالتوا رکھنے پر گجرات ہائی کورٹ پر ناراضگی ظاہر کی اور کہا کہ اس کیس کو زیرالتوا رکھنے کے دوران قیمتی وقت ضائع کیا گیا۔