دہلی

مظفر نگر میں مسلم طالب علم کو تھپڑ واقعہ کی سپریم کورٹ میں سماعت

سپریم کورٹ نے کہا کہ مظفر نگر میں ایک مسلم طالب علم کو اس کے ساتھیوں کی جانب سے تھپڑ رسید کئے جانے کے بعد اتر پردیش کے حکام نے مبینہ طور پر کلاس ٹیچر کی ایماء پر توقع کے مطابق کارروائی نہیں کی۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے کہا کہ مظفر نگر میں ایک مسلم طالب علم کو اس کے ساتھیوں کی جانب سے تھپڑ رسید کئے جانے کے بعد اتر پردیش کے حکام نے مبینہ طور پر کلاس ٹیچر کی ایماء پر توقع کے مطابق کارروائی نہیں کی۔

متعلقہ خبریں
آتشبازی پر سال بھر امتناع ضروری: سپریم کورٹ
گروپI امتحانات، 46مراکز پر امتحان کا آغاز
خریدے جب کوئی گڑیا‘ دوپٹا ساتھ لیتی ہے
کشمیر اسمبلی میں 5 ارکان کی نامزدگی سپریم کورٹ کا سماعت سے انکار
برج بہاری قتل کیس، بہار کے سابق ایم ایل اے کو عمر قید

جسٹس ابھئے ایس اوکا اور جسٹس اجل بھویان پر مشتمل بنچ کو ریاستی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ اب اس طالب علم کو والدین نے ایک نئے اسکول میں داخل کرادیاہے جو کافی دور ہے اور یہ حق تعلیم قانون کے اصولوں کے مغائر ہے۔

خاندان کے وکیل نے جواب دیا کہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ ان کے گھر کے قریب کوئی اچھے اسکول نہیں ہیں۔ جسٹس اوکا نے کہاکہ یہ سب اس وجہ ہوا کیونکہ ریاست نے جرم کے ارتکاب کے بعد ویسی کارروائی نہیں کی جیسی اس سے توقع کی جارہی تھی۔

ریاستی حکومت کو چاہئے کہ وہ اس واقعہ کے پیش آنے کے انداز کے بارے میں فکر مند رہے۔ اسی لیے ہم نے قانون پر عمل آوری سے متعلق دیگر مسائل بھی اٹھائے ہیں۔ عدالت نے جمعہ کے روز فریقین سے کہاکہ وہ کونسلنگ رپورٹ کا مطالعہ کریں اور اس میں ترمیمات کی تجاویز پیش کریں۔

یہ رپورٹ اس واقعہ کے پیش نظر ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسس نے تیار کی ہے۔ سپریم کورٹ میں تشار گاندھی کی درخواست کی سماعت ہورہی تھی جو مہاتما گاندھی کے پڑ پوتے ہیں۔ انہوں نے ایک مسلم طالب علم کو تھپڑ مارنے کا مجبور کرنے کے لیے اسکول ٹیچر ترپتیا تیاگی کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

تیاگی نے مسلم طالب علم کے مذہب کا حوالہ دیاتھا اور مسلم بچوں کے بارے میں تحقیر آمیز انداز میں گفتگو کی تھی۔ اس نے طالب علم کے ساتھیو ں سے کہاتھا کہ وہ اسے زور زور سے تھپڑ ماریں۔ اس واقعہ کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا تھا۔ قبہ پور گاؤں میں واقع اس اسکول کو بعدازاں مہر بند کردیاگیاتھا۔

اسی دوران ٹیچر نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا اور زور دے کر کہا کہ شاید اس نے غلطی کی تھی اور اس واقعہ کا کوئی فرقہ وارانہ پہلو نہیں ہے۔

تشار گاندھی نے اپنی درخواست میں اس معاملہ کی مقررہ مدت میں اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیاتھا انہوں نے اسکولی طلباء اور خاص طور پر مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کے خلاف تشدد سے نمٹنے کے لیے اصلاحی اقدامات پر زور دیاتھا۔

حکومت اتر پردیش نے گزشتہ سال اکتوبر میں سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ اس اسکول ٹیچر کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 295 A کے تحت الزامات عائد کئے جاسکتے ہیں۔ عدالت نے طالب علم اور اس کے ساتھیوں کی پروفیشنل کونسلنگ کی۔ اس کے علاوہ متاثرہ طالب علم کا کسی نئے اسکول میں داخلہ کرانے کا حکم دیاتھا۔