قانونی مشاورتی کالم

حیدرآباد ڈیزاسٹرریسپانس اینڈ اسیٹ پروٹیکشن ایجنسی (HYDRAA)، حقیقت، فسانہ، مقصد اور قانونی موقف

حالیہ دنوں میں تلنگانہ کے عوام کے ذہنوں میں اور زبان پر اگر کسی کا ذکر سب سے زیادہ ہے وہ حیڈرا۔یہ ایسا لفظ ہے جو کئی دلوں میں دہشت پیدا کردیا ہے۔چیف منسٹر نے اسمبلی سیشن میں حکومت کا جو منصوبہ حیڈرا کا ہے اسے ایوان کے سامنے پیش کیا۔

ایم۔اے مجیب
ایڈوکیٹ‘ تلنگانہ ہائیکورٹ

متعلقہ خبریں
جھیلوں کی اراضی پر تعمیرات کی اجازت دینے والے عہدیداروں کے خلاف کاروائی کا فیصلہ

حالیہ دنوں میں تلنگانہ کے عوام کے ذہنوں میں اور زبان پر اگر کسی کا ذکر سب سے زیادہ ہے وہ حیڈرا۔یہ ایسا لفظ ہے جو کئی دلوں میں دہشت پیدا کردیا ہے۔چیف منسٹر نے اسمبلی سیشن میں حکومت کا جو منصوبہ حیڈرا کا ہے اسے ایوان کے سامنے پیش کیا۔انہوں نے اپنی تقریر میں حیڈراکی اہمیت پر روشنی ڈالی۔انہوں نے اپنی ایک گھنٹہ طویل تقریر میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ قیام حیدرآباد کے بعد سے لیکر قلی قطب شاہ کے دور تک اب تک کے جو بھی حکمراں رہے ہیں انہوں نے کس طرح سے شہر حیدرآباد کی ترقی کی راہ میں گامز ن کیا۔چارمینار‘ گلزار حوض‘ پتھر گٹی ّ‘ لاڈ بازار یا موسی ندی کے اوپر مختلف بریجس کی تعمیرات‘ نئے شہر کی تعمیر‘ سائبرآباد کی تعمیر‘ ہائی ٹیک سٹی کی تعمیر‘ ایرپورٹ کی تعمیر یہ سب سابقہ حکومت کے کارنامے ہیں جس سے شہر حیدرآباد کو بین الاقوامی سطح پر مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔

نظام سرکار ہو یا متحدہ آندھرا کی سابق حکومتیں یا پھر تلنگانہ کی تشکیل کے بعد کے حکمراں نے ترقی میں اپنا اپنا رول ادا کیا۔موجودہ حکومت حیڈرا کے ذریعہ سے جو اصل حیدرآباد ہے وسیع طورپر پھیل گیا ہے جس میں مختلف میونسپلٹیز‘ میونسل کارپوریشن‘ اور گرام پنچانیوں پر مشتمل ہے تمام طبقہ کے افراد کی توقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے شہر کی ترقی کو ایک نئی راہ پر لیکر جانا ایک وقت کی ضرورت ہے۔شہر حیدرآباد کو دوزمروں میں آج کی تاریخ میں بانٹا جاسکتا ہے۔ایک وہ شہر جو اوٹر رنگ کے اندر ہے اور وہ علاقے جو اوٹر رنگ روڈ کے باہر ہیں۔

ایک وقت ایسا تھا جب نظام حکومت کے دور میں تقریباً چھ ہزار تالاب اور جھلیں ہوا کرتی تھی۔سرکاری ذرائع کے مطابق نظام سرکاری کی دور کے تقریباً چھ ہزار تالابوں اور جھیلوں کی تفصیلات گورنمنٹ کے ریکارڈ میں موجود ہے۔90 کے دہے میں جب کہ حکومتوں کی پالیسی رہی ہے کہ ایسے جھیل یا تالاب جس کی زمینی رقبہ 10 ایکٹر سے کم ہے انہیں کالونیز بنانے کی اجازت دی گئی اس طرح سے ہم لوگوں نے 3ہزار تالابوں اور جھیلوں کو کھودیا۔اب ایک سروے کے مطابق حیدرآباد میٹرو پولٹین اتھاریٹی کے تحت سات اضلاع ہیں اور ان اضلاع کے تحت تقریباً 2500 اراضیات کی نشاندہی کی گئی اور اگر شہر حیدرآباد کے اربن ایریا کا جائزہ لیا جائے تو 60فیصد تالاب اور جھیلیں قبضہ کا شکار ہوچکی ہیں اور ہماری ریاست کی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے تالابوں اور جھیلوں کے قبضوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کی سرزنش کی اور یہاں تک انتباہ دیا گیا کہ جھیلوں اور تالابوں کا تحفظ نہیں کیا گیا تو عہدیداروں کو کورٹ میں طلب کیا جائے گا۔

اس کے بعد حکومت حرکت میں آگئی اور وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد ہی موسی ندی کی ترقی کی بات کرتے رہے۔موسیٰ ندی کارپوریشن کیلئے فنڈ کی اجرائی کرنا اور موسی ریور کا جو راستہ ہے اس کو کس طرح سے قبضہ سے پاک کیا جاسکتا ہے اس کیلئے حکومت اپنے کام کا آغاز کرسکتی ہے۔موسی ریور اننت گری ہلز سے نکلتے ہوئے عثمان ساگر اور حمایت ساگر میں ضم ہوتی ہے اس کے دو چھوٹے ریور ہے ایک عیسی اور موسی۔کئی سالوں تک عثمان ساگر اور حمایت ساگر پینے کے پانی کا ذریعہ تھے۔

اگر موسی ندی کو دوبارہ بحال کرنا ہے تو عثمان ساگر اور حمایت ساگر کو لبریز کرنا ہوگا اور اننت گری ہلز سے موسی ندی کے تمام قبضوں کو برخواست کرنا ہوگا۔کیونکہ کئی بڑے سیاستداں‘ دولت مندوں کے فارم ہاؤز اور مکانات حمایت ساگر اور عثمان ساگر کے اطراف تعمیر کئے گئے ہیں ان کو برخواست کرنا ضروری ہے۔ذرائع کے مطابق عثمان ساگر اور حمایت ساگر کے اطراف جتنے بھی فارم ہاؤز موجود ہیں وہ لوگ اپنا ڈرینج کا پانی دونوں ساگروں میں چھوڑ رہے ہیں۔کیونکہ تالابوں‘ ندیوں اور جھیلوں کا تحفظ وقت کا تقاضہ ہے اور شہری نظام اور شہری زندگی کے قابل بنانے کیلئے تالاب اور جھیلیں اپنا بہت بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔

ان جھیلوں اور تالابوں کی موجودگی سے پانی کی سطح بڑھتی ہے اور آلودگی میں کمی ہوتی ہے۔اب ہم کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تالابوں‘ جھیلوں کے اطراف تعمیرات اس لئے غیر قانونی ہیں۔سب سے پہلے ہم کو جاننا چاہئے کہ ایف ٹی ایل کیا ہوتا ہے۔ایف ٹی ایل کسی بھی تالاب کے جھیل فل ٹینک لیول کو کہا جاتا ہے اور فل ٹینک لیول وہ ہے اگر جھیل میں پانی بھر جائے تو جھیل اور تالاب کی حد کہاں تک ہوسکتی ہے اسے ایف ٹی ایل کہتے ہیں اور اس ایف ٹی ایل کے حدود میں کسی بھی طرح کی تعمیرات غیرقانونی ہے اور ایف ٹی ایل کے بعد 30 میٹر س کا بفر زون ہوتا ہے اور اس بفر زون میں بھی تعمیرات کرنا غیر قانونی ہے۔30 میٹرکے بعد 100 میٹر کا ری کیریشین زون ہوتا ہے اس کے بعد 1000 میٹر تک صرف اور صرف تحدیدات کے ساتھ تعمیرات کی اجازت دی جاسکتی ہے۔کوئی بھی تعمیرات ان حدود کے اندر ہوتی ہے تو غیر قانونی قرار دی جاتی ہے اور حکومت کو یہ اختیار ہے کہ وہ ایسے غیر قانونی تعمیرات کو منہدم کرسکتی ہے۔

یہ بات کو دیکھنا ہے کہ ان غیر قانونی تعمیرات کو روکنے کیلئے اور تالابوں‘ نالوں اور سرکاری زمینات کو حاصل کرنے کیلئے حیڈرا کس طرح کا رول ادا کرسکتا ہے۔حکومت تلنگانہ کی جانب سے جی او ایم ایس نمبر 99 مورخہ 19 جولائی 2024جاری کیا گیا۔جس کے تحت تلنگانہ کور اربن ریجن جو جی ایچ ایم سی‘ رنگاریڈی‘ میڑچل‘ ملکاجگری‘ سنگاریڈی تک ایک حد بندی کردی گئی ہے جس کو کور اربن ریجن کہا جائے گا اور اس کور اربن ریجن کیلئے ایک بہتر ایجنسی کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے حیڈرا کا قیام عمل میں لایا گیا اور جو حیڈراکی کارکردگی پارکس‘ لے آؤٹ‘ پلے گراؤنڈس‘ جھیل‘ نالہ جات‘ روڈس‘ کیریج ویس‘ فٹ پاتھ کو قبضوں سے پاک کرنا ہے اور حیڈرا ان قبضوں کی برخواستگی کیلئے جی ایچ ایم سی‘ میونسپلٹیز‘ ایچ ایم ڈی اے‘ ریونیو اور دیگر محکمہ جات کے ساتھ ملکر کام کرے گا

اور کسی بھی طرح کی غیرقانونی تعمیرات اور پراجیکٹس پر نظر رکھے گا اور عوام کو وقتا فوقتا مشورہ جاری کرے گا اور اس بات کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے کہ حیڈرا کا ایک علحدہ پولیس اسٹیشن بھی ہوگا جس کے تحت ایسے آفیسرس جنہوں نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعمیرات کا پرمیشن دیا ہے ایسے عہدیداروں کے خلاف بھی کاروائی کی جائے گی اور حیڈرا کی ایک گورننگ باڈی ہوگی جس کے چیرمین چیف منسٹر ہوں گے اور دیگر وزراء‘ پولیس کے اعلیٰ عہدیدار ممبرس ہوں گے۔کمشنر حیڈرا اس گورننگ باڈی کے ممبرو کنوینر ہوں گے۔

حیڈرا کی تشکیل کے بعد سے وہ حرکت میں آتے ہوئے کچھ اہم مقامات پر انہدامی کاروائی کو انجام دی ہے۔ ور کچھ تالابوں پر ناجائز تعمیرات کو روکنے میں کامیابی بھی حاصل کی گئی ہے۔لیکن تلنگانہ ہائی کورٹ نے کہا کہ حیڈرا کا مقصد کچھ بھی ہو لیکن پرنسپل آف نیچرل جسٹس پر ہر حال میں عمل کرناہوگا اور کسی بھی کاروائی سے پہلے نوٹس لازمی طورپر دینی چاہئے اور سنوائی کا موقع دینے کے بعد ہی تعمیرات غیر قانونی پائے جاتے ہیں تو ہی کاروائی کی جانی چاہئے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حیڈرا کی جانبدارانہ کاروائی کی صورت میں کوئی بھی شہری عدالت سے رجوع ہوسکتا ہے۔بہر حال ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے تالابوں‘جھیلوں اور سرکاری اراضیات کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔

یہاں اس بات کا تذکرہ بے حد ضروری ہے کہ حیڈرا کی کوئی بھی کاروائی قانون کے دائرہ میں ہونی چاہئے اور اس معاملہ میں شفافیت کو ملحوظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔تمام معاملات میں ایک ہی پالیسی پر عمل آوری ضروری ہے۔حیڈرا کو سیاسی انتقام کی ایجنسی کے طورپر استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔حیڈرا کے قیام کے منشاء و مقصد کی برقراری کیلئے ضروری ہے کہ اخلاص کے ساتھ اقدامات کے ذریعہ حیدرآباد کو عالمی سطح پر ایک بہترین اور خوبصورت شہر کے طورپر ترقی دی جائے۔