مذہب
ٹرینڈنگ

کاش!

گزشتہ جمعہ جب زوروں کی بارش ہورہی تھی تو میں نے ارادہ کرلیاتھا کہ خودکشی کرکے غم زندگی سے چھٹکارا حاصل کرلوں، کیو ں کہ مجھے جینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آرہی تھی۔ لہٰذا میں نے اوپر کے کمرے میں جاکر رسی اور کرسی کے سہارے جان دینے کی ٹھان لی تھی

ہر جمعہ کو نماز سے فارغ ہونے کے بعد مسجد کے امام صاحب او ران کا ایک گیارہ سالہ بیٹا ایمسٹرڈم کی گلیو ں میں نکل پڑتے اور لوگوں کے درمیان ”الطریق الٰہی الجنۃ“ نامی کتابچہ کی انگلش زبان میں شائع کا پی تقسیم کرتے پھرتے۔ یہ معمول چلتا رہا،یہاں کہ ایک جمعہ کو مطلع ابر آلود ہوگیا، موسلادھار بارش ہونے لگی اور کڑاکے کی ٹھنڈ پڑگئی۔ باپ نے کہا کہ ”بیٹا آج موسم کافی ٹھنڈا ہے، بارش بھی ہورہی ہے، آج موقوف کرتے ہیں۔“

متعلقہ خبریں
مسجد بیت میں ناپاکی کی حالت میں بیٹھنا
گائے کے پیشاب سے علاج
باپ اور بھائی کی قاتل 15 سالہ لڑکی گرفتار
مذہب کے نام پر مسلمانوں کو تحفظات، وزیر اعظم کا الزام گمراہ کن: محمد علی شبیر
سعودی عرب میں لڑکی سے غیر اخلاقی حرکت پر ہندوستانی شہری گرفتار

یہ سن کر بیٹے نے حیران کردینے والا جواب دیا اور کہا! ابا جان بہت سارے لوگ تو دوزخ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ باپ کے لاکھ منانے کے باوجود بالآخر اجازت لے کر بیٹا نکل پڑا۔ راستے بھر بھیگتے بھاگتے لوگوں سے ملتا رہا، کتابچے تقسیم کرتا رہا، قریب دو گھنٹے بارش میں بھیگنے کے بعد اس کے پاس صرف آخری کتابچہ باقی رہا۔ وہ قریب کے ایک چھوٹے سے گھر کی طرف بڑھا سوچا کوئی ہوگا تو آخری کتابچہ اسے دوں۔پاس پہنچا،دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کوئی آواز نہ آئی۔ وہ برابر دروازہ کھٹکھٹاتا رہا، جانے اس کے دل میں کیا آیا کہ وہ وہاں سے جانے کا نام نہیں لے رہا تھا اور اب کی باردروازہ قوت کے ساتھ کھٹکھٹایا۔

کچھ لمحے بیت جانے کے بعد ایک عمر رسیدہ خاتون دروازے پر آئی جس کے چہرے پر حزن و افسردگی کے آثار نمایاں تھے۔ بولی بیٹے کیا کام ہے؟

ننھا سا بچہ مسکراتے لبوں اور روشن نگاہوں کے ڈورے جھکاکر بولا محترمہ زحمت دینے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ دراصل آپ کو یہ بتانے آیا ہو ں کہ اللہ تعالیٰ ”آپ سے بے حد پیار کرتا ہے“اور اس نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے۔

میں یہ آخری کتابچہ آپ کو ہدیہ کرنے آیا ہوں۔ یہ کتابچہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں کچھ پیغامات دے گا اور خلق و مخلوق کی حقانیت واضح کردے گا۔ خاتون نے کتابچہ لیا اور شکریہ کہتے ہوئے واپس اندر گئی، بچہ بھی گھر لوٹا۔ اگلے ہفتے جمعہ کا خطبہ ختم ہونے کے بعد وہ بزرگ خاتون کھڑی ہوئی اور پورے مجمع سے مخاطب ہو کر کہا، میرا یہاں کوئی جاننے والا نہیں ہے اور نہ اس سے پہلے یہاں آنے کا کبھی اتفاق ہوا ہے۔

گزشتہ جمعہ کو میں مسلمان نہیں تھی اور نہ ہی میں نے کبھی مسلمان ہونے کا خیال دل میں لایا تھا۔ کچھ ماہ پہلے میرے شوہر کا نتقال ہوگیا اور وہ مجھے تن تنہا چھوڑ کر چلا گیا، اس کے جانے کے بعد زندگی بوجھل ہوگئی تھی، لطف زندگی ناپید ہوگیا تھا۔

گزشتہ جمعہ جب زوروں کی بارش ہورہی تھی تو میں نے ارادہ کرلیاتھا کہ خودکشی کرکے غم زندگی سے چھٹکارا حاصل کرلوں، کیو ں کہ مجھے جینے کی کوئی وجہ نظر نہیں آرہی تھی۔ لہٰذا میں نے اوپر کے کمرے میں جاکر رسی اور کرسی کے سہارے جان دینے کی ٹھان لی تھی بس شاید کچھ لمحات کی دیر تھی کہ یہ جسدخاکی قفس عنصری سے پرواز کرجاتا کہ یکایک میں نے دروازے کی کھڑکھڑاہٹ سنی۔

میں نے کچھ دیر توقف کیا۔ سوچا کہ جو ہوگا کچھ دیر میں خود ہی چلا جائے گا، لیکن مسلسل دروازے کی کھڑکھڑاہٹ نے مجھے گلے سے پھندا نکالنے پر مجبور کردیا۔ میں اس سوچ غلطاں و پیچاں رہی کہ آخر کون ہے؟ جو ایسے پُرخطر موسم میں میرے دروازے پر دستک دے رہا ہے وہ بھی مسلسل۔ بالآخر میں نیچے آگئی۔ دروازہ جو کھولا تو ایک ننھی سی جان کا بھیگتا ہوا وجود میری نگاہوں کے سامنے زیرلب مسکرارہا تھا۔ وہ مسکراہٹ اور آنکھوں کی چمک میں نے کبھی کسی انسان میں نہ دیکھی تھی۔

اس کا یہ کہنا کہ محترمہ میں آپ کو یہ پیغام دینے آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے بہت پیار کرتا ہے اور آپ کا خیال رکھتا ہے،پھر اس نے مجھے کتابچہ”الطریق الٰہی الجنۃ“ جو میرے ہاتھ میں ہے،دیا۔ میں نے دروازہ بند کیا اور نہ چاہتے ہوئے کتاب کو کھولا۔ پھر جو کتاب کو پڑھنا شروع کیا، آنسوؤں سے میری آنکھیں ڈبڈباگئیں۔ میرے اندر ایک انقلاب برپا ہوچکا تھا۔ میں جان گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے واقعتاً بہت پیار کرتا ہے۔

میں نے کرسی اور پھندا پھینک دیا، کیوں کہ اب مجھے سہارا مل گیا تھا۔ اب مجھے زندگی کی قیمت سمجھ میں آچکی تھی۔آج میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میں نے اپنے مالک حقیقی کو پہچان لیا۔ اس کتاب پر دیے گئے پتے کی وجہ سے میں یہاں پہنچ سکی ہوں۔ میں آپ کا شکریہ کرنے کے لیے یہاں آئی ہوں۔میں اس چھوٹے فرشتے کا شکریہ ادا کرناچاہتی ہوں جو مسیحا بن کر مجھے دوزخ کے دہانے سے بچالایا ہے۔

مسجد میں چہار جانب آنکھیں اشک بار تھیں، تکبیرات کی صداؤں سے پوری مسجد گونج اٹھی۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر۔(نکات از مضمون ”نو عمر داعی“ تحریر صداقت حسین، ملاحظہ ہو صفہ 61تا64 بشکریہ ماہنامہ حجاب اسلامی دہلی، دسمبر2023ء)

کاش! ہر کوئی اپنے آپ سے یہ سوال کرے کہ کیا ہم نے کبھی اس طرح لوگوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کی ہے؟ کیا ہمارے سینے میں وہ درد اور وہ فکر ہے جو ہمارے پیارے نبی ؐ کو لوگوں کی ہدایت کے لیے تھی یا جو اس ننھے سے بچے کے دل میں تھی؟

محمد مصطفی علی انصاری۔ کریم نگر۔

a3w
a3w