عمران خان اب بھی سرینڈر ہوجائیں، آئی جی کو گرفتاری سے روک دیاجائے گا: جج
جج نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق عمران خان کو سیدھا عدالت لانا تھا، عمران خان کو عدالتی پیشی پر حراساں کرنا ممکن ہی نہیں ہے، عدالت نے کہا کہ سیکشن 91 کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور یہ وارنٹ سیکشن 93 کہ تحت جاری ہوئے ہیں۔
اسلام آباد: عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کے جج ظفر اقبال نےکہا ہےکہ عمران خان اب بھی سرینڈر کردیں تو میں آئی جی کو گرفتاری سے روک دوں گا۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں توشہ خانہ کیس کی سماعت جاری ہے جہاں عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا وارنٹ بحالی کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
جج نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ اب تک عدالتی طریقہ کار سے سیشن عدالت کو موصول نہیں ہوا، جج نے استفسار کیا کہ آپ کو کیا لگتا ہے کیس قابل سماعت ہونے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو نوٹس دینا چاہیے ؟ مسئلہ ایک سیکنڈ میں حل ہو سکتا ہے، عمران خان کہاں ہیں؟ عمران خان ذاتی حیثیت میں عدالت میں کہاں پیش ہوئے ہیں؟ انڈرٹیکنگ کا کانسیپٹ کہاں پر ہے؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کیا ضروری ہےکہ عمران خان کو گرفتار کرکے ہی عدالت لائیں؟ جج نے ریمارکس دیے کہ ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان عدالت آجائیں، عمران خان کیوں نہیں آرہے؟ وجہ کیا ہے؟ ۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہےکہ غیرقانونی عمل سے آرڈر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے، اگر قابل ضمانت وارنٹ ہوتے تو مسئلہ ہی کچھ نہ ہوتا، وارنٹ ناقابل ضمانت ہیں، وارنٹ گرفتاری عمران خان کی ذاتی حیثیت میں پیشی کے لیے ہیں۔
وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ عمران خان تو خود کہہ رہے ہیں کہ میں عدالت آنا چاہتا ہوں، عمران خان استثنیٰ نہیں مانگ رہے، عدالت آنا چاہتےہیں، کیا اس وقت ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کے فیصلے کی ضرورت ہے؟ آپ کے پاس دو آپشنز موجود ہیں، درخواست گزار آنا چاہتےہیں، پہلا آپشن آپ انڈرٹیکنگ کی درخواست منظورکرکے ناقابل ضمانت وارنٹ منسوخ کردیں، دوسرا آپشن آپ ضمانت لے کر قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کریں، عمران خان انڈرٹیکنگ دینا چاہتےہیں کہ 18 مارچ کو سیشن عدالت میں پیش ہوں گے۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی استدعا کی جس پر جج نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو نوٹس بھی دیتے ہیں، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آپ نوٹس دے کر الیکشن کمیشن کو آج ہی بلالیں، جج نے استفسار کیا کہ لاہور زمان پارک میں صورتحال خراب کیوں ہے؟۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ حکومت سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے، گرفتاریاں ہوئی ہیں، زیادتی ہوئی ہے، زمان پارک میں جو ہو رہا ہے وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ تین سے زیادہ ایسے واقعات ہوئے ہیں جس میں تشدد کے واقعات ہوئے ،لوگوں پر مقدمات کیے گئے، عدالت نے کہا کہ عمران خان ابھی عدالت میں سرنڈر کر دیں تو میں آئی جی کو گرفتاری سے روک دوں گا۔
جج نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق عمران خان کو سیدھا عدالت لانا تھا، عمران خان کو عدالتی پیشی پر حراساں کرنا ممکن ہی نہیں ہے، عدالت نے کہا کہ سیکشن 91 کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور یہ وارنٹ سیکشن 93 کہ تحت جاری ہوئے ہیں۔
عمران خان کے وکلا نے اصل انڈر ٹیکنگ عدالت میں جمع کروا دی، جج نے ریمارکس دیے کہ غریب ملک ہے، کروڑوں روپے وارنٹ پر خرچ ہوئے جس کی ضرورت نہیں تھی، عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ میں تبدیلی کیا ہوگی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں ٹرائل کورٹ سے جاری وارنٹ گرفتاری منسوخ کرنے کے لیے دائر عمران خان کی درخواست خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں دیا گیا بیان حلفی ٹرائل کورٹ میں پیش کریں، عدالت نے عمران خان کے وارنٹ گرفتاری کا حکم برقرار رکھا تھا اور کہا تھا کہ ٹرائل کورٹ اس بیان پر قانون کے مطابق فیصلہ کرے۔