ایشیاء

عمران خان جیل میں 14 سال گزاریں گے یا 24 سال؟

ماہرین قانون کے مطابق، جج کو اپنے فیصلے میں یہ بتانا ہوگا کہ قید کی سزا مجموعی ہوگی یا ایک ساتھ۔ ایک ساتھ قید وہ سزا ہے جو بیک وقت بھگتی جاتی ہے جبکہ مجموعی سزا وہ ہے جو اس وقت تک شروع نہیں ہوتی جب تک کہ پہلے سنائی گئی سزا ختم نہ ہو جائے۔

اسلام آباد: توشہ خانہ کیس میں احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد عمران خان کتنا وقت جیل میں گزاریں گے؟ سابق وزیر اعظم کو 14 سال قید کی سزا ہوگی یا 24 سال کیونکہ انہیں سائفر کیس میں بھی 10سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

متعلقہ خبریں
خط اعتماد چرانے والوں پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے: عمران خان
عمران خان کے خلاف غداری کیلئے اُکسانے کا کیس درج
چانسلر آکسفورڈ یونیورسٹی کے الیکشن پر عالمی میڈیا میں ہلچل
عمران خان کا پولی گراف ٹسٹ کرانے سے انکار
عدت نکاح کیس: عمران خان، بشریٰ بی بی کی سزا کےخلاف اپیلوں پر فیصلہ محفوظ

ایک ریٹائرڈ جج سمیت ماہرین قانون کی رائے ہے کہ عمران خان کی سزا مجموعی سزا کے بجائے ایک ساتھ (کنکرنٹ) ہوگی۔ ماہرین قانون کے مطابق، جج کو اپنے فیصلے میں یہ بتانا ہوگا کہ قید کی سزا مجموعی ہوگی یا ایک ساتھ۔ ایک ساتھ قید وہ سزا ہے جو بیک وقت بھگتی جاتی ہے جبکہ مجموعی سزا وہ ہے جو اس وقت تک شروع نہیں ہوتی جب تک کہ پہلے سنائی گئی سزا ختم نہ ہو جائے۔

جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ عدالتوں کو اپنے فیصلے میں یہ بتانا ہوگا کہ سزا ایک ساتھ ہوگی یا مجموعی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے کیس میں اگر عدالت اسے ایک ساتھ سزا قرار دیتی ہے تو عمران خان کو زیادہ سے زیادہ 14 سال جیل میں گزارنے پڑیں گے۔

ان دونوں مقدمات میں عمران خان کو کتنی جلد ضمانت مل سکتی ہے، اس بارے میں بات کرتے ہوئے جسٹس (ر) وجیہہ نے کہا کہ اصولاً اگر ملک میں کوئی انتخابی عمل جاری ہے اور کسی قومی رہنما کو سزا ہوئی ہے تو اس کے کیس سے متعلق اپیل کے امور کو ترجیح دینا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ یا تو پورے مقدمے کی جلد سماعت کی جائے یا کم از کم سزا معطل کر دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان معاملات میں عدلیہ کا طرز عمل افسوس ناک ہے، ہم نے ایوین فیلڈ کیس میں غیر شائستہ جلد بازی دیکھی اور عمران خان کے کیس میں بھی وہی جلد بازی نظر آ رہی ہے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ جب ایک سے زیادہ سزائیں ہوں تو عدالتیں حتمی فیصلے میں واضح کرتی ہیں کہ سزا ایک ساتھ ہوگی یا مجموعی۔

انہوں نے کہا کہ عموماً قانون یہ کہتا ہے کہ عدالت اس وقت تک ایک ساتھ سزائیں سناتی ہے جب تک کہ کوئی پیشہ ور مجرم یا انتہائی مطلوب دہشت گرد نہ ہو۔ عمران خان کے کیس میں یہ ایک ساتھ سزا ہوگی اور انہیں صرف زیادہ سے زیادہ سزا بھگتنی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اگر عدالتیں کسی وجہ سے یہ واضح نہیں کرتی ہیں کہ سزا ایک ساتھ ہوگی یا مجموعی تو ایسی صورت میں وکیل ضابطہ فوجداری کے سیکشن 561 کے تحت ایک ساتھ (کنکرنٹ) سزا پر فیصلہ سنانے کیلئے درخواست دائر کر سکتا ہے۔

اس سوال پر کہ چونکہ نیب قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا سنائی گئی ہے تو ایسے میں عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس کیس میں کتنی جلد ضمانت مل سکتی ہے۔