مذہب

اسلام نے مردوں کی طرح عورت کا بھی میراث میں حصہ متعین فرماکر عورت کی عزت و تکریم کی۔ مولانا حافظ پیر شبیر احمدکا بیان

حضرت مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعےۃ علماء تلنگانہ وآندھراپریش نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ        دورِ جاہلیت میں اہل عرب مختلف قبیلوں اور طبقوں میں بٹے ہوئے تھے۔

حیدرآباد: حضرت مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعےۃ علماء تلنگانہ وآندھراپریش نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ        دورِ جاہلیت میں اہل عرب مختلف قبیلوں اور طبقوں میں بٹے ہوئے تھے۔

متعلقہ خبریں
سلسہ قادریہ، چشتیہ، کمالیہ کا ایک روزہ اصلاحی وتربیتی اجتماع
الانصار فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ہفتہ واری درس قرآن
مرکزی بجٹ میں تلنگانہ کے ساتھ ناانصافیوں کو دور کیا جائے۔ کانگریس ایم پیز کا زور
رئیل اسٹیٹ ونچرکی آڑ میں چلکور کی قطب شاہی مسجد کو شہید کردیاگیا: حافظ پیر شبیر احمد
جمعہ کی نماز اسلام کی اجتماعیت کا عظیم الشان اظہار ہے: مولانا حافظ پیر شبیر احمد

وراثت میں ان کے ہاں چھوٹے بچوں اور عورتوں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے جہاں شرک وکفرکا خاتمہ ہوا اور دیگر تمام باطل رسموں کی اصلاح ہوئی، وہیں یتیموں کے مال اور عورتوں کے حقوق و میراث کے سلسلے میں بھی تفصیلی احکامات نازل ہوئے۔

اسلام سے قبل دنیا کی مختلف تہذیبوں اور معاشروں کا جائزہ لیں اور عورت کی حیثیت کو پہچاننے کی کوشش کریں تو ہم اس نتیجے پرپہنچتے ہیں کہ عورت بہت مظلوم اور معاشرتی و سماجی عزّت و احترام سے محروم تھی۔

اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابلِ نفرت تصور کیا جاتا تھا۔ درحقیقت عورت کی عظمت، احترام اور اس کی صحیح حیثیت کا واضح تصور اسلام کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتا۔ اس لئے اللّہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں عورتوں کے حقوق کا ذکر خصوصیت سے کیا۔ان میں ایک عظیم احسان یہ ہے کہ اسلام نے خواتین کو میراث کا حق دیا ہے۔

میراث اس مال کو کہتے ہیں جو مرنے والا بطورِ ترکہ چھوڑ کر جاتا ہے۔اسلام نے مردوں کی طرح عورت کا بھی میراث میں حصہ متعین فرماکر عورت کی بڑی تکریم کی۔ زمانہ جاہلیت میں عورت حقِ میراث سے محروم تھی بلکہ وہ خود ہی سامانِ میراث تھی۔ عرب کے لوگ عورت کو بھی اپنی وراثت کا حصہ سمجھتے تھے، جس سے قرآن نے منع کیا ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ ایمان والو! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھو‘معاشرے میں خواتین کو وراثت سے محروم کرنے کی ایک اہم وجہ وراثت کی ادائیگی کی اہمیت اور عدم ادائیگی کے گناہ سے ناواقفیت بھی ہے۔ علماء کرام کو  اس کے متعلق آگاہی دینی چاہیے۔

لوگوں کو بتانا چاہیے کہ قرآن مجید میں وارثوں کا حق ادا نہ کرنے والوں کے لیے کتنے شدید عذاب کی وعید ہے۔عورت کا وراثت میں حق اگر مرد کے قبضہ میں ہے تو وہ اس کے پاس امانت کے طور پر ہوتا ہے پھر چاہے عورت بہن ہو، بیٹی ہو، ماں ہو یا پھر بیوی، اس امانت کو عورت کو پہنچا کر ہی خیانت سے بچا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے قرآن پاک میں ارشاد ہے: ترجمہ: اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ۔

تقسیم میراث کے نظام میں عورت کے حصہ کو اساس اور بنیاد بنایا گیا اور پھر تمام حصوں کے تعین کے لئے اسے اکائی بنایا گیا۔ گویا میراث کی تقسیم کا سارا نظام عورت ہی کے حصہ کی اکائی کے گرد گھومتا ہے جو درحقیقت عورت کی تکریم و وقار کے اعلان کا مظہر ہے۔

لہٰذا اس کا علم عوام تک پہنچانا اہل علم کی ذمہ داری ہے۔ خطباتِ جمعہ، دینی اجتماعات میں اس کا چرچا ہونا چاہیے۔تاکہ عوام اس کی اہمیت کو سمجھے۔ لوگوں پر لازم ہے کہ میراث کے سلسلے میں من مانی کرنے کے بجائے اہل علم سے مسئلہ معلوم کریں اور اسی کی روشنی میں میراث تقسیم کریں، اور اللہ سے ڈرتے رہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ناجائز طریقے سے مال کمانے اور کھانے سے منع فرمایا ہے، لہٰذا ہرقسم کے حرام مال سے بچیں اور یاد رکھیں کہ دنیا وآخرت کی سعادت وکامیابی اور جنت انہیں کو ملے گی جو نیکی کی راہ پر چلتے ہیں اور گناہوں سے بچتے ہیں۔

اللہ ہم سبھی کو میراث کی تقسیم میں شریعت کی اتباع کی توفیق بخشے، اور ناجائز کمائی اور اس کی برائی سے محفوظ رکھے، تاکہ عورتوں کو ان کا حقِ میراث مل سکے اور وہ ایک خوش حال زندگی گزار سکیں۔

a3w
a3w