Land Titling Act. 2022 قانون سازی کی آڑ میں عوامی جائیدادوں کو ضبط کرنے اور اسٹامپ ڈیوٹی کے نام پر لاکھوں کروڑروپیہ وصول کرنے کا منصوبہموجودہ حالات میں کوئی بھی اپنی آبائی یا خریدی ہوئی جائیداد کا حقیقی مالک نہیں رہا
٭ حقِ ملکیت حاصل کرنے کے لئے اتھاریٹی کے روبرو جائیداد کو رجسٹر کروانے اور اسٹامپ ڈیوٹی ادا کرنے کا لزوم۔ ٭ جائیداد سے متعلق کوئی مقدمہ بھی زیرِ دوراں ہو تو اس کی اطلاع اتھاریٹی کو دینے کا لزوم۔ ٭ کوئی بھی عدالت اس معاملہ میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ حکم حاکم مرگِ مفاجات۔ ٭ قانونی تناظر میں کسی بھی جائیداد کی خرید سے گریز کی رائے۔ ٭ رئیل اسٹیٹ تجارت تباہ و تاراج ہوجائے گی۔
محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔
زیرِ تحریر مضمون شائد قارئین کو ایک الجھن میں مبتلا کردے۔ لیکن حیران و پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ملک کے اعلیٰ سطح کے قانون دان اس زیرِ بحث قانون کے زہر کا تریاق تلاش کررہے ہیں اور بہت ممکن ہے کہ بہت جلد اس قانون کے دستوری جواز کو سپریم کورٹ میں چیالنج کیا جائے گا۔ کسی بھی غیر منقولہ جائیداد کا ڈبل رجسٹریشن درست نہیں۔ یہ قانون دستورِ ہند کے آرٹیکل (300-A)کی خلاف ورزی میں بنایا گیا ہے جو ہر شہری کو جائیداد رکھنے کا حق عطا کرتا ہے۔ رجسٹریشن کا عمل رجسٹریشن ایکٹ اور اسٹامپ ڈیوٹی کے تحت ہوتا ہے‘ جس میں غیر منقولہ جائیداد ٹرانسفر کی جاتی ہے اور رجسٹریشن فیس وصول کی جاتی ہے۔ متذکرہ قانون کے تحت زائد از ایک صدی سے رائج قوانین کی دھجیاں اڑادی گئی ہیں جو کہ ایک قابلِ مذمت عمل ہے چاہے اسے ریاستی اسمبلی نے پاس کیا ہو۔ قانون کے مطابق معینہ مدت کے ختم ہونے کے بعد یہ باور کیا جائے گا کہ ریاستی اسمبلی نے اسے پاس کرلیا ہے۔ گویا اب یہ قانون بن چکا ہے اور اب اس قانون پر عمل آوری کی قواعد پوری ہونے والی ہے۔
یہ قانون ملک کے نظم عدل کے خلاف ایک جارحانہ اقدام ہے۔ قانون نے ان معاملات میں سیول عدالت کو مداخلت سے باز رکھا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پیشۂ وکالت پر بھی یہ قانون ایک کاری ضرب ہوگی کیوں کہ سیول کورٹ میں زیادہ تر معاملات (TITLE) ہی سے متعلق ہوتے ہیں اور ایسے مقدمات کو (TITLE SUIT) کہا جاتا ہے۔ اب وکلاء برادری سے ان کاکام ‘ ان کا روزگار بھی اس قانون کے ذریعہ چھین لیا گیا ہے۔ اگر قانون کی رو سے دیکھا جائے تو تمام ریاستوں میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں رہا جو کہہ سکے کہ اس کے پاس اس کی مقبوضہ جائیداد کا (TITLE) بمعنی حقِ مالکانہ ہے اور اس مالکانہ حق کے حصول کے لئے وہ مجبور ہے کہ قانون کے تحت بنائی ہوئی اتھاریٹی کے روبرو تمام مالکانہ حقوق کے دستاویزات کے ساتھ از خود پیش ہو یا اس مقصد کے لئے کسی ایجنٹ یا ایڈوکیٹ کا تقرر کرے۔ اگر اتھاریٹی کے روبرو تمام دستاویزات پیش کئے جائیں اور اتھاریٹی درخواست گزار کے دستاویزات سے مطمئن ہو تو درخواست گزار کے نام اس کی جائیداد کا حقِ مالکانہ جاری کیا جائے گا۔ اگر اس مرحلہ پر کوئی تیسرا شخص اعتراضات پیش کرے تو کیس کو (Dispute Resolution Authority) کے روبرو پیش کیا جائے گا۔ اگر یہاں بھی بات نہیں بنتی ہے تو اس سے اوپر ایک ٹریبونل قائم کیا جائے گا جس کا فیصلہ صادر کیا جائے گا۔ اس فیصلہ کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کی گنجائش قانون نے پیدا کی ہے۔
دوسری اور سب سے بڑی وجہ جو اس قانون سازی کی محرک بنی وہ یہ ہے کہ حکومت اسٹامپ ڈیوٹی کے ضمن میں لاکھوں کروڑ روپیہ وصول کرسکتی ہے۔ یہ اگر بندر بانٹ نہیں تو پھر کیا ہے۔
قانون میں اسٹامپ ایکٹ کا ذکر ہے جس کی رو سے اسٹامپ ڈیوٹی وصول کی جائے گی۔ آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اسٹامپ ڈیوٹی کی رقومات جو سرکاری خزانے میں داخل ہوں گے وہ کس قدر ہوں گی۔
ایک مثال اس طرح دی جاسکتی ہے کہ ریاستِ تلنگانہ میں رجسٹریشن کے ذریعہ ہزاروں کروڑ روپیہ وصول ہوتے ہیں۔ یہ رقم صرف ان جائیدادوں کی ہوگی جو ایک سال میں خریدی یا فروخت کی گئی ہوں۔ ریاست کی تمام کی تمام جائیدادوں بشمول رہائشی مکانات ‘ اراضیات ‘ زرعی اراضیات کی فروخت ہو تو اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کتنے لاکھ کروڑ روپیوں کی آمدنی حکومت کو ہوگی۔
اب چونکہ مقررہ اتھاریٹی کے روبرو تمام جائیدادوں کے (TITLE) کے حصول کیلئے جانا ضروری ہوگیا ہے اس بات کا اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ سارے ملک کی جائیدادوں کا اگر (TITLE) حاصل کرنے کے لئے (TITLE) رجسٹریشن فیس وصول کی جائے تو محصولہ رقم کس قدر بھاری ہوگی۔ شائد مرکزی حکومت کا واحد مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ تمام صاحبِ جائیداد افراد پر دوبارہ رجسٹریشن فیس ادا کرنے کا بوجھ عائد کیا جائے اور اتنی بھاری رقم وصول کی جائے جو ملک کے سالانہ بجٹ سے زیادہ ہو۔
قانون سازی کے مضر اثرات اور رئیل اسٹیٹ تجارت
موجودہ حالات میں کوئی شخص بھی اپنی جائیداد کا حقیقی مالک نہیں کیوں کہ اس کے پاس دستاویزات اور قبضہ ضرور ہے لیکن (TITLE) نہیں۔ قانون کے مطابق اب سیول کورٹ بھی (TITLE) مقدمات کی سماعت نہیں کرسکتی۔ قانون کے مطابق اگر سیول عدالت میں کسی بھی جائیداد سے متعلق (TITLE) کا مقدمہ چل رہا ہے بھی تو اس کی اطلاع اتھاریٹی کو دینے کا لزوم ہے۔ اس بات کا بھی لزوم ہے کہ جائیدادوں کی خرید و فروخت کے معاہدات ہوئے ہوں یا کسی شخص کے نام GPA دیا گیا ہو۔ جائیدادوں کو لیز پر دے دیا گیا ہو یا جائیدادوں سے متعلق مقدمات زیرِدوراں ہو تو بھی اتھاریٹی کے علم میں ان باتوں کو لانے کا لزوم ہے۔
اب جب کہ کوئی بھی شخص کسی بھی جائیداد کا مالک ہی نہیں رہا تو وہ اپنی جائیداد / جائیدادوں کو فروخت نہیں کرسکتا اور اگر کوئی شخص ہمت کرکے ایسی جائیداد کو خرید بھی لے اور رجسٹریشن بھی کروالے تو اس پر دوبارہ (TITLE) کی اتھاریٹی کے روبرو تمام دستاویزات کے ساتھ پیش ہونا پڑے گا اور دوبارہ اتنی ہی اسٹامپ ڈیوٹی ادا کرکے (TITLE) حاصل کرنا ہوگا۔ تو ایسی صورت میں رئیل اسٹیٹ تجارت کا کیا ہوگا جس کے سارے ملک میں ڈنکے بج رہے ہیں۔
ہماری رائے ہے کہ جب تک اس مسئلہ کی یکسوئی نہیں ہوجاتی یعنی سپریم کورٹ اس قانون کو کالعدم قرارنہیں دیتی‘ اس وقت تک کسی بھی جائیداد کا خریدنا خود کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا۔ اگر خدانخواستہ سپریم کورٹ بھی حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے تو جائیدادوں کے (TITLE) کا حصول ناگزیر ہوجائے گا۔
رشوت کے FLOOD GATES کھل جائیں گے
قانون کے تحت قائم ہونے والی اتھاریٹی اپنے ایجنٹس کے ذریعہ بھاری رقومات (ٹیبل کے نیچے سے) بطورِ رشوت لے کر (TITLE) سے متعلق اپنا حکم جاری کرے گی۔ درمیانی افراد اس موقع کا فائدہ اٹھائیں گے۔ رشوت ستانی کی طغیانی زوروں پر ہوگی اور بے چارہ اور بے بس مالکِ جائیداد اس قانون کی چکی میں بے قصور پس جائے گا۔
مالکینِ جائیداد کو موجودہ حالات میں اپنی جائیداد فروخت کرنے میں مشکلات ہوں گی وہیں خریدار بھی پریشان ہوجائے گا کیوں کہ اس کا سارا پیسہ زندگی کی ساری کمائی خطرے میں پڑجائے گی۔
لہٰذا ہماری یہ مخلصانہ رائے ہے کہ جب تک اس معاملہ کی یکسوئی نہیں ہوجاتی‘ کسی بھی مکان‘ دوکان‘ فلیٹ‘ پلاٹ کی خریدی سے گریز کیا جائے اور اس وقت تک انتظار کیا جائے جب تک اس مسئلہ کی قانونی یکسوئی نہیں ہوجاتی۔
ہم نے اپنی نادانی میں سمجھا تھا کہ عوام پر معاشی بوجھ ڈالنے کے لئے موجودہ زعفرانی حکومت وراثت ٹیکس قانون لاگو کرے گی ‘ ہر کسی کا خیال ہے کہ وراثت ٹیکس کسی بھی وقت لاگوہوسکتا ہے۔ بعض حلقوں میںایسی باتیں بھی گشت کررہی ہیں کہ یہ قانون منسوخ قانون اربن لینڈ سیلنگ ایکٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اربن لینڈ سیلنگ کے تحت حکومت نے شہری علاقوں اور اطراف کے علاقوں کی سینکڑوں ایکر فاضل اراضیات پر قبضہ کرلیا تھا۔
زیر بحث قانون اپنی نوعیت کا ایک بہت ہی خطرناک قانون ہے جو شہریوں کے بنیادی حقوق کی جڑیں کاٹ رہا ہے۔ اپنے شہریوں کو بے گھر اور بے در کرنے کے درپئے ہے۔
یہ قانون این۔آر۔سی ‘ سی۔اے۔اے سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جس طرح NRC میں لائن میں کھڑا ہوکر اپنی شہریت کو ثابت کرنے کا لزوم تھا ‘اسی طرح اس قانون کے تحت مالکینِ جائیداد کو ایک لائن میں کھڑا ہوکر (TITLE) ثابت کرنا ہوگا اور یہ بات اتھاریٹی کے صوابدید پر منحصر ہوگی کہ وہ آپ کو (TITLE) کا حقدار سمجھے یا نہیں۔
اس بات کا بھی امکان ہے کہ اس قانون کے شکار ایک مخصوص طبقہ کے لوگ ہوں گے کیوں کہ تمام عہدیدار اسی قماش کے ہوں گے جیسے کہ ان کے سیاسی آقا۔
آخر میں اس بات کو آشکارہ کرنا ضروری ہوگیا ہیکہ جو بھی رواں کالم میں لکھا جارہا ہے اور جو بھی پیوستہ کالم میں لکھا گیا ‘ اس کی بنیاد صرف اور صرف قانون تھا اور اس مضمون میں کسی بھی قسم کی آمیزش نہیں ہے۔
کچھ عرصہ سے ساری دنیا سے ٹیلی فون آرہے ہیں اور تمام کے تمام حضرات سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔ ایک صاحب نے یہاں تک کہہ دیا کہ آپ قارئین کو ڈرا رہے ہیں جبکہ قانون ساز کوئی اور ہے۔ ہم نے تو صرف قانون کا تجزیہ کیا جو ہمارا پیشہ وارانہ فرض ہے۔
جمہوریت کا چوتھا ستون یعنی صحافت عوام دشمن قوانین پر مباحث کے بجائے صرف گودی میڈیا کا کردار ادا کررہا ہے ‘ اسی لئے ہم نے رائے دی تھی کہ مضمون پڑھنے سے قبل انٹرنیٹ پر Land Titiling Act-2022 کا مطالعہ کیجئے اور اس کے بعد ہی کچھ کہیئے۔دیکھئے ‘ پڑھیئے ‘ سنیئے اور جاننے کی کوشش کیجئے۔ زمانے کے تیور بگڑے ہوئے ہیں۔
ان حالات میں جبکہ حکومت اور سپریم کورٹ آپس میں نبردآزما ہیں‘ یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ سپریم کورٹ اس معاملہ میں مداخلت کرے گا بھی یا نہیں۔ موجودہ زعفرانی حکومت ملک کی عدلیہ کو اپنے زیرِ نگیں لانا چاہتی ہے جس کا ثبوت وزیر قانون کا وہ گستاخانہ اقدام ہے جس میں انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف سے کہا ہے کہ وہ ہائیکورٹ کے ججوں کے تقرر کرنے والی کمیٹی میں حکومت کے نمائندوں کو بھی شامل کریں۔ دوسری جانب نائب صدر جمہوریہ جو راجیہ سبھا کے صدر نشین بھی ہیں‘ نے صاف طور پر کہا کہ سپریم کورٹ کے کیشونندن بھارتی کیس کا فیصلہ غلط تھا۔ اس فیصلہ میں سپریم نے (7-6)کے بنچ میں کہا تھا کہ پارلیمنٹ دستور میں ترمیم تو ضرور کرسکتی ہے لیکن دستور کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتی یعنی شخصی آزادی۔ صحافت کی آزادی۔ اظہارِ خیال کی آزادی۔ زندگی کا حق۔ آزادی کا حق او رجائیداد رکھنے کے حق میں کوئی ترمیم نہیں ہوسکتی۔ یہ بات ہمارے نائب صدر جمہوریہ کو ہضم نہیں ہوسکی اور ا نہوں نے بالراست سپریم کورٹ پر تنقید کردی۔
اب وہ دن دور نہیںجب دستور کو ہی تبدیل کردیا جائے گا اور ملک کو اسی راستے پر لے جانے کی کوشش کی جائے گی جس راہ پر اڈولف ہٹلر نے نازی پارٹی کے عروج کے دوران لے جانے کی کوشش کی تھی۔
پتہ نہیں ہم جمہوریت میں رہتے ہیں یا آمریت میں
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
اک انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
نثار میں تیری گلیوں کے ائے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سراٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
ہے رسم دل کے لئے اب یہ نظم بست و کشاء
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد