جادو و نظر بد کی حقیقت
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے اور انہیں بیماری کے ذریعہ‘ مال ودولت میں کمی کر کے‘ دلوں میں خوف ڈال کر‘ جانیں تلف کرکے آزماتا ہے۔ جب بندہ ابتلاء وآزمائش کی منزلوں سے گزرتا ہے تو دعا ودوا کے ذریعہ ان وکو دور کرنے کی سعی پیہم کرتا ہے، شریعت مطہرہ نے علاج ومعالجہ کی اجازت دی ہے بلکہ احادیث شریفہ میں پریشانیوں‘ مصیبتوں‘ بیماریوں سے خلاصی کے طریقے موجود ہیں۔
مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی مجددی قادری
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے اور انہیں بیماری کے ذریعہ‘ مال ودولت میں کمی کر کے‘ دلوں میں خوف ڈال کر‘ جانیں تلف کرکے آزماتا ہے۔ جب بندہ ابتلاء وآزمائش کی منزلوں سے گزرتا ہے تو دعا ودوا کے ذریعہ ان وکو دور کرنے کی سعی پیہم کرتا ہے، شریعت مطہرہ نے علاج ومعالجہ کی اجازت دی ہے بلکہ احادیث شریفہ میں پریشانیوں‘ مصیبتوں‘ بیماریوں سے خلاصی کے طریقے موجود ہیں۔
اسباب مصائب:
(۱) خواص کے مصائب: اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو مصیبتوں اور پریشانیوں پر صبر کی توفیق دیکر اپنا مقرب بناتا ہے، جیسا کہ بخاری شریف میں ہے: قال رسول اللہ ﷺ: من یرد اللہ بہ خیراً یصب منہ(بخاری) ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اس کو اپنی طرف سے مصائب پہنچاتا ہے‘‘۔
اگر یہ صبر کرلیں تو ان کیلئے اجر جمیل ہے۔ جیسا کہ بخاری شریف میں ہے: قال رسول اللہ ﷺ: ما من مصیبۃ تصیب المسلم الا کفر اللہ عنہ حتی الشوکۃ یشاکھا (بخاری)
ترجمہ: ’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان کو جو بھی مصیبت پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو اس کیلئے (گناہوں کا) کفارہ بنا دیتا ہے حتی کہ جو کانٹا اس کو چبھتا ہے‘‘۔
(۲) عوام الناس کے مصائب: اور عام آدمی کی پریشانی اس کی بے راہ روی کی وجہ سے ہوتی ہے یا حاسدین کے حسد کی وجہ سے یا جادوگر کی جادو گری سے یا نظر بد کی وجہ سے ہوتی ہے۔ عام لوگ اس کے تدارک و ازالہ کیلئے دنیادار عاملین یا جادوگروں سے رجوع ہوتے ہیں تاکہ انہیں تکالیف سے راحت مل جائے۔ لیکن حضرات دنیا کے حصول کی خاطرجھوٹ بول کر اور دھوکا دے کر ان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کردیتے ہیں۔ ایسے دھوکے باز کے پاس جانے سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:
عن أبی مسعود قال نھی النبي ﷺ عن ثمن الکلب و مھر البغي و حلوان الکاھن
ترجمہ: ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے کتے کی قیمت اور فاحشہ کی کمائی اور کاہن کی اجرت سے منع فرمایا ہے ۔
علامہ خطابی نے کہا ہے :کاہن وہ لوگ ہوتے ہیں جو بہت ذہین ہوتے ہیں اور ان کے نفوس شدیدہ ہوتے ہیں اور ان کی طبیعت کو آگ کے ساتھ نسبت ہوتی ہے ،تو شیطان ان سے الفت رکھتے ہیں کیونکہ شیاطین اور ان کے درمیان تناسب پایا جاتا ہے ،اور زمانہ جاہلیت میں عرب میں کہانت بہت تھی ،کیونکہ اس زمانہ میں نبوت منقطع تھی ،پھر جب اسلام آگیا تو کہانت بالکل نادر ہوگئی حتیٰ کہ تقریبامضمحل ہوگئی۔ دورِ حاضر کے دنیا پرست عاملین انہیں کی راہ اختیار کئے ہوئے ہیں، ان میں جھوٹ اور دھوکہ دہی رچ بس گئی ہے۔
اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جادو کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ جادو ثابت اور موجود ہے اور اس کی تاثیر ہے اور عقل کے نزدیک یہ محال نہیں ہے جیسا کہ سورہ بقرہ میں ارشاد ربانی ہے:
ولکن الشیطین کفروا یعلمون الناس السحر وما انزل علی الملکین ببابل ھاروت وماروت۔الخ (البقرہ :۱۰۲)
ترجمہ: البتہ شیاطین ہی کفر کرتے تھے ،وہ لوگوں کو جادو (کے کفریہ کلمات )سکھاتے تھے ،اور انہوں نے اس (جادو )کی پیروی کی جو شہر بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر اتارا گیا تھا اور وہ (فرشتے )اس وقت تک کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک کہ یہ نہ کہتے کہ ہم تو صرف آزمائش ہیں تو تم کفر نہ کرو ،وہ ان سے اس چیز کو سیکھتے جس کے ذریعہ وہ مرد اور اس کی بیوی کے درمیان علیحدگی کردیتے ،اور اللہ کی اجازت کے بغیر وہ اس (جادو) سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے ،اور وہ اس چیز کو سیکھتے جو ان کو نقصان پہنچائے اور ان کو نفع نہ دے ،اور بے شک وہ خوب جانتے تھے کہ جس نے اس (جادو )کو خریدلیا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔سورہ (البقرہ)
جادو کی تعریف یہ ہے کہ ’’یہ وہ امر ہے جو خلاف عادت ہے اور کسی نفس شریر سے صادر ہوتا ہے اور اس سے معارضہ کرنا مشکل نہیں ہے ۔‘‘ کسی کو نقصان پہنچانے کیلئے جادو کا عمل کرنا حرام ہے اور اس پر اجماع ہے کہ یہ گناہ کبیرہ ہے اور نبی ﷺ نے ہلاک کرنے والے امور کو بیان کیا ،ان میں سے بعض کفر ہیں اوربعض کفر نہیں ہیں بلکہ گناہ کبیرہ ہیں ۔ اگر جادو میں ایسا قول یا فعل ہو جس کا تقاضا کفر ہوتو جادو کفر ہے ورنہ کفر نہیں ہے۔
اس آیت کریمہ سے واضح ہے کہ جادو کے ذریعہ اختلافات پیدا کئے جاسکتے ہیں، اور میاں بیوی کے درمیان اختلاف کی وجہ سے شیطان بہت خوش ہوتا ہے، زوجین کے درمیان محبت آپسی محبت پیدا کرنے کے لئے (یَا لَطِیْفُ یَا وَدُوْدُ)
روزانہ پانچ سو مرتبہ پڑھنے سے ان شاء اللہ دونوں میں نفرت دور ہوگی اور محبت پیدا ہوگی، اگر کوئی جادو کے اثرکو محسوس کرتا ہے یا اسے یقین ہوتونمازِ مغرب یا عشاء کے بعد چالیس(۴۰) مرتبہ سورہ فلق اورچالیس مرتبہ سورہ ناس بسم اللہ کے ساتھ پڑھ کر اپنے جسم پر یا پانی پر دم کر کے پی لے، انشاء اللہ چالیس دن کے اندر سحر کا اثر دور ہوگایا پھر بعد نمازِ عشاء اول آخر گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلي العظیم پانچ سو (۵۰۰) مرتبہ روزانہ پڑھنے سے انشاء اللہ سارے مصائب دور ہو جائیں گے۔
جادو کی طرح نظرِ بد حق ہے، نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: العین حق نظرِ بد حسد کرنے والا لگاتا ہے اور یہ معروف ہے اور حسد کرنے والا وہ شخص ہے جس کے دل میں برائی کی محبت بھری ہوئی ہوتی ہے، اور جب وہ کسی شخص کو خوش دیکھتا ہے تو وہ مغموم ہوتا ہے اور جب کسی شخص کو بدحالی میں مبتلا دیکھتا ہے تو خوش ہوتا ہے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا نفس خبیث ہوتا ہے، ان کے منہ سے خبیث ہوا نکلتی ہے حتیٰ کہ جس چیز کو وہ نظر لگاتے ہیں اس چیز پر وہ خبیث ہوا پہنچ جاتی ہے اور اس کو ہلاک یا ضائع کردیتی ہے۔
اس مصیبت کو زائل کرنے کا طریقہ:
اس مصیبت کو زائل کرنے کا طریقہ یا تو قرآن مجید کی آیتیں پڑھنا ہے، یعنی قرآن مجید کی آیات پڑھ کر دم کیا جائے، اور یا یہ طریقہ ہے کہ جس نے نظر لگائی ہے اس کا وضو کرایا جائے پھر اس کے وضو سے جو قطرات گریں ان قطرات کو اس کے سر پر ڈالا جائے جس کو اس نے نظر لگائی ہے یا وہ قطرات اس کی کمر پر ڈالے جائیں، یا وہ قطرات اس کو پلائے جائیں تو اللہ تعالیٰ کے اذن سے شفاء ہو جائے گی۔ جن پر نظر کا اثر ہو ان پر سورہ قلم کی آخر دوآیت کو ساتھ (۷) مرتبہ پڑھ کر دم کرلیں، انشاء اللہ نظر کا اثر دور ہوگا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا یا آپ نے حکم فرمایا کہ نظر لگنے کے بعد دم کو طلب کیا جائے۔ (بخاری) ۔ اور امام بخاری نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کے اہل بیت کیلئے ہر زہریلے جانور کے ڈسنے سے دم کرنے کی اجازت دی۔ (بخاری) حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص اپنے آپ کو یا اپنے مال کو یا اپنے بھائی کو دیکھے اور وہ اس کو اچھا لگے تو اس کو چاہئے کہ وہ برکت کی دعاء کرے، کیونکہ نظر کا لگنا برحق ہے۔(سنن کبریٰ) حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے کہا: یارسول اللہؐ! جعفر کے بچوں کو نظر بہت جلد لگ جاتی ہے تو کیا ہم ان کے لئے دم کروالیا کریں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! کیونکہ اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت کر سکتی تو نظر کا لگنا تقدیر پر سبقت کرتا۔ (ترمذی) حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم نظر لگنے کے سوا دم نہ کروائو۔ (الموطا)
امام مسلم اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :ہمیں مسدد نے حدیث بیان کی ،انہوں نے کہا :کہ میں اور ثابت حضرت انس ؓ کے پاس گئے تو ثابت نے کہا :اے ابو حمزہ میںبیمار ہوگیا ہوں ،پس حضرت انس ؓ نے کہا :کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کے دم کرنے کے کلمات کے ساتھ د م نہ کروں ؟انہوں نے کہا :کیوں نہیں ! پھر حضرت انس ؓ نے دعا کی :اے اللہ ! لوگوں کے ر ب ،بیماری کو دور کرنے والے ،شفا ء عطا فرما،تو ہی شفاء دینے والا ہے ،تیرے سوا کوئی شفا ء دینے والا نہیں ہے ،ایسی شفاء عطا فرماجو کسی بیماری کو نہ چھوڑے ۔
امام مسلم اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :نظر کا لگنا برحق ہے ،اور اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت کر سکتی تو نظر سبقت کرتی اور جب تم سے غسل کرنے کو طلب کیا جائے تو تم غسل کرو ۔
عن عائشۃ قالت کَانَ النَّبِیُّ ﷺ یُعَوِّذُ بَعْضَھُمْ یَمْسَحُ بِیَمِیْنِہِ (أَذْھِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ وَ اشْفِ اَنْتَ الشَّافِیْ لَا شِفَائَ اِلَّا شِفَاؤُکَ شِفَائً ا لَا یُغَادِرُ سَقَمًا)
ترجمہ: حـضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ بعض صحابہ کو دم کرتے وقت ان پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے اور یہ دعا کرتے :
’’اے لوگوں کے رب !اس بیماری کو لے جا اور شفا ء دے ،تو ہی شفاء دینے والا ہے ،تیری شفاء کے سوا اور کوئی شفاء نہیں ہے ،ایسی شفا ء جو کسی بیماری کو باقی نہ رکھے ‘‘۔
اگر یہ دعا اپنے رشتہ دار مریض کے پیشانی پر ہاتھ رکھ کر سات مرتبہ پڑھی جائے تو ان شاء اللہ شفا ممکن ہے۔
عن عمر وبن شعیب عن ابیہ عن جدہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعلمنا کلمات نقولھن عند النوم من الفزع
عمروبن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں چند کلمات سکھاتے تھے جن کو ہم خوف اور دہشت کی وجہ سے سوتے وقت پڑھا کرتے تھے وہ کلمات یہ تھے :
بِسْمِ اللّٰہِ اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّۃِ مِنْ غَضَبِہِ وَعِقَابِہِ وَشَرِّ عِبَادِہِ وَمِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَاَنْ یَّحْضُرُوْنِ۔
گلے میں تعویذ ڈالنے کا جواز:
حضرت عبد اللہ بن عمروؓ اپنے بالغ بچوں کو سوتے وقت ان کلمات کے پڑھنے کی تلقین کرتے اور جو کم سن بچے ان کلمات کو یاد نہیں کرسکتے تھے ان کے گلوں میں ان کلمات کو لکھ کر بطور تعویذ ڈال دیتے ۔ جن تعویذات کو گلے میں ڈالنے سے رسول پاک علیہ الصلوٰۃ و السلام نے منع فرمایا ہے اس سے مراد شرکیہ کلمات ہیں۔
مذکورہ دعا کو اور سورہ فلق و سورہ ناس اور آیت الکرسی کو رات میں سوتے وقت تین تین مرتبہ پڑھ کر جسم پر دم کرلیا جائے تو جادو ٹونا، شیاطین وجنات وغیرہ کے اثرات سے محفوظ ہورہیں گے ان شاء اللہ۔ جب نبی کریم ﷺ بیمار ہوجاتے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام حاضر ہو کر آپؐ پر یہ پڑھ کر دم کرتے۔ جیسا کہ مسلم شریف میں ہے: عن عائشتہ زوج النبي صلی اللہ علیہ وسلم انھا قالت کان اذا اشتکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رقاہ جبریل قال (بِاِسْمِ اللّٰہِ یُبْرِیْکَ وَمِنْ کُلِّ دَآئٍ یَشْفِیْکَ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَاحَسَدَ وَشَرِّ کُلِّ ذِيْ عَیْنٍ)
ترجمہ:نبی کریم ﷺ کی زوجہ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوتے تو جبرئیل علیہ السلام آکر آپ کو دم کرتے اور یہ کلمات کہتے
(ترجمہ) اللہ ہی کے نام سے ،وہ آپ کو تندرست کرے گا ،اور ہر بیماری سے شفادے گا اور حسد کرنے والے حاسد کے ہرشر سے اور نظر لگانے والی آنکھ کے ہر شر سے آپ کو اپنی پناہ میں رکھے گا ۔
سئلت عائشۃ عن الرقیۃ فقالت رخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاھل بیت من الانصار فی الرقیۃ من کل ذي حمۃ
ترجمہ: حضرت اسود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دم کروانے کے متعلق دریافت کیا ،حضرت عائشہ نے بیان کیا کہ انصار کے ایک گھرانے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر زہریلے ڈنک کی تکلیف میں دم کرنے کی اجازت دی ہے ۔
عن عثمان بن ابي العاص الثقفي انہ شکا الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وجعا یجدہ فی جسدہ منذ اسلم
ترجمہ: حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ جب سے وہ اسلام لائے ہیں ان کے جسم میں درد ہوتا ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تمہارے جسم میں جہاں درد ہے وہاں ہاتھ رکھو اور تین بار بسم اللہ کہو اور سات بار کہو: اَعُوْذُ باللہ وقدرتہ من شر مَا اَجِدُ وُأُحَاذِرُ
(ترجمہ )میں اللہ کی ذات اور قدرت کی اس چیز کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جس کو میں پاتا ہوں اور جس سے میں ڈرتا ہوں ۔
٭٭٭