مناقب سیدنا عبد القادر جیلانی ؒ
اہل اسلام کے لئے سب سے بڑی نعمت ایمان ہے، مومن کو اس سے خالق حقیقی کی پہچان اور معبودِ حقیقی کی اطاعت وعبادت کا شرف نصیب ہوتا ہے ۔تعلیمات اسلامیہ کی وجہ سے شرک وکفر کی تاریک گمراہی سے محفوظ رہتا ہے ،یہ بیش قیمت دولت اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کو ہی ملتی ہے ۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی مجددی قادری
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)
اہل اسلام کے لئے سب سے بڑی نعمت ایمان ہے، مومن کو اس سے خالق حقیقی کی پہچان اور معبودِ حقیقی کی اطاعت وعبادت کا شرف نصیب ہوتا ہے ۔تعلیمات اسلامیہ کی وجہ سے شرک وکفر کی تاریک گمراہی سے محفوظ رہتا ہے ،یہ بیش قیمت دولت اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کو ہی ملتی ہے ۔ یقینا استقامتِ دین و ہدا یتِ ایمان اس سے بڑھ کر دولت ہے، اسی لئے بندہ مومن تمام فرض نمازوں کی ہر رکعت اور سنن ونوافل کی سب رکعتوں میں ہدایتِ ایمانی کی دعا مانگتا ہے ۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں حالت نماز میں عرض کرتا ہے: اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم ۔اے اللہ ہمیں سیدھا راستہ چلا ان لوگوں کا راستہ چلا جن پر تونے انعام فرمایا ۔باری تعالیٰ کی جانب سے اسطرح کی دعا کا حکم دیا جانا یقینا یہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ،اس لئے کہ انسان کا سب سے بڑا ازلی دشمن شیطان ہر وقت مومن سے ایمان کو چھیننے کی کوشش کرتا ہے ا بلیس نے باری تعالیٰ کی بارگاہ میں قسم کھائی تھی: قال فبعزتک لا غوینھم اجمعین الا عبادک منھم المخلصین (ص) اُس نے کہا کہ (اے رب )تجھے تیری عزت کی قسم میں ان سب (تیرے بندوں )کو گمراہ کروں گا سوائے ان لوگوں کے جو تیرے منتخب کئے ہوئے بندے ہیں ۔اور یہ حق ہے کہ صراط مستقیم ہی مرادانِ حق کا مقصود و مدعا ہے۔
مسلمان ہمیشہ انعام یافتہ حضرات کی راہ پر چلنے کی دعا کرتا ہے۔بے شک رب العالمین کے پاس انعا م یافتہ بندے محبوب و مقرب ہیں۔ جنہیں انعام سے نوازہ گیا رب کریم نے سورہ نساء میں اسکا ذکر نہایت تفصیل کے ساتھ فرمایا: ومن یطع اللہ والرسول فاولٓئک مع الذین انعم اللہ علیھم ۔۔۔ الخ(سورہ نساء) ’’یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے بڑا انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ بہت اچھے رفیق ہیں‘‘۔ اس آیت مبارکہ میں انعام یافتہ بندوں میں سے صالحین کا ذکر ہے ۔نمازی ہر رکعت میں دعا کرتا ہے کہ اے اللہ مجھے صالحین کی راہ پر چلا ۔رسول پاک ﷺ اکثر سابقہ امت کے اولیاء کا تذکرہ فرماتے تاکہ امت محمدیہ پر ان کی عظمت آشکار ہو اور دین محمدی کی طرف رغبت پیدا ہو ،ماہ ربیع الثانی کی مناسبت سے سید نا عبدالقادر جیلانی ؒکا ذکر باعث رہنمائی ونجات ہوگا۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ نے عظیم روحانی پیشوا، سیدنا عبدالقادر حسنی حسینی رحمۃ اللہ علیہ کو سادات گھرانے میں سن ۴۷۰ھ ایران کے قصبہ جیلان میں پیدا فرمایا۔ آپ کی والدہ محترمہ سیدہ ام الخیر فاطمہ رحمۃ اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ میرے فرزند جس دن پیدا ہوئے اس دن سے پورے رمضان المبارک میں سحر سے لیکر افطار تک دودھ نہیں پیتے تھے۔ کان لا یرضع ثدی في نھاررمضان: وہ رمضان شریف میں دن تمام دودھ نہیں پیتے تھے۔
یہ بات شہر میں مشہور ہوگئی تھی کہ سادات گھرانہ میں ایک لڑکا تولد ہوا ہے جو رمضان کے روزے رکھتا ہے۔ دن میں دودھ نہیں پیتا ایک دفعہ ابر آلود ہونے کی وجہ سے لوگوں کو چاند نظر نہیں آیا تو لوگ آپ کے مکان آکر دریافت کرنے لگے۔ سید زادے دن میں آج دودھ پئے یا نہیں؟ آپ کی والدہ ماجدہ نے بتایا کہ میرے صاحبزادے نے آج دودھ نہیں پیا ہے۔ تحقیق کے بعد ظاہر ہوا کہ اس دن رمضان المبارک کی پہلی تاریخ تھی۔
اشتھر ببلدنا في ذلک الوقت أنہ للاشراف ولد لا یرضع في نھار رمضان ۔ (طبقات کبریٰ، جامع کرامات، قلائد الجواہر، بہجۃ الاسرار) ہمارے شہر میں مشہور ہوگیا تھا کہ سادات گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان المبارک میں دن کے وقت دودھ نہیں پیتا۔
اس سے قدرتِ الٰہی کا اظہار ہوتا ہے اسی سبب بچپن ہی سے ولایت کی شہرت عام ہوگئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
یقول بینا امرأۃ ترضع ابنھا اِذ مَرَّ بھا راکب وھی ترضعہ۔۔۔ إلی آخرہ۔ (بخاری) رسول انور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے میں نے سنا (پچھلی امتوں میں) ایک عورت اپنے بیٹے کو دودھ پلا رہی تھی اس وقت اس خاتون کے پاس سے ایک سوار گزرا اس عورت نے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی: اے اللہ! میرے بیٹے کو اس وقت تک موت نہ دینا جب تک کہ میرا بیٹا اس شخص کی طرح نہ ہوجائے تو فوراً اس بچے نے عرض کی اے باری تعالیٰ! مجھے اس شخص کی طرح نہ بنانا پھر وہ بچہ دودھ پینے لگا اور ایک مظلومہ عورت اس دودھ پلانے والی خاتون کے پاس سے گزری جس کو گھسیٹا جا رہا تھا اور اس کا مذاق اُڑایا جا رہا تھا اس بچے کی والدہ نے دعا کی: اے اللہ! میرے صاحبزادے کو اس عورت کی طرح نہ بنانا پھر شیرخوار بچے نے دعا کی مولائے کریم تو مجھے اس عورت کی طرح (سچا اور نیک) بنا آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ سوار کافر تھا اور دوسری عورت جس پر زنا اور چوری کی تہمت لگائی گئی تھی (وہ نیک خاتون تھی) وہ کہتی تھی اللہ میرے لئے کافی ہے۔
اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک شیرخوار بچے کو ایسا علم عطا کیا کہ وہ اپنی والدہ کی دعا سن بھی رہا ہے او رسمجھ بھی رہا ہے اور ہر دو کے احوال سے واقف ہوکر اللہ کی بارگاہ میں نیک بنانے کی دعا کر رہا ہے۔ یہ واقعہ بنی اسرائیل کے شیرخوار بچے کا ہے۔ سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ تو امت محمدیہ خیر امت اور اہل بیت عظام سے ہیں اگر وہ شیرخواری میں روزہ رکھے اور اپنی والدہ کے پیٹ میں اٹھارہ (۱۸) پارے حفظ کرلے تو اس بات کو تسلیم کرنے میں شک نہیں کرنا چاہئے۔ سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ بچپن ہی سے شریعت کے پابند تھے، آپ کے والد گرامی سید ابوصالح موسیٰ جنگی دوست نہایت متقی پرہیزگار، پابند شریعت، ولی کامل، حسنی سادات سے تھے۔ آپ کے بچپن میں ہی والدکا انتقال ہوگیا، غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ اپنی والدہ ماجدہ کے زیر تربیت و پرورش رہے اور آپ نے ابتدائی تعلیم گیلان کے مشہور ماہر اساتذہ سے حاصل فرمائی۔
چھوٹی سی عمر میں پورے قرآن کریم کے حافظ ہوگئے، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے گیلان سے بغداد جانے کا ارادہ کیا، اس وقت آپ کی عمر اٹھارہ (۱۸) سال تھی۔ والدہ محترمہ کی اجازت سے ایک چھوٹے سے قافلہ کے ساتھ بغداد کے لئے راونہ ہوگئے روانگی سے قبل والدہ صاحبہ نے چند نصیحتیں فرمائی اور فرمایا: اے بیٹے! ہر حال میں سچ بولنا۔ جب یہ قافلہ ہمدان مقام سے گذرا تو چھپے ہوئے ڈاکوؤں نے اس قافلہ پر حملہ کردیا۔ سب ڈاکو ہتھیار سے لیس تھے اور مسافروں کا مال لوٹ رہے تھے، ڈاکوؤں کے سردار احمد بدوی نے کہا: اے لڑکے! تمہارے پاس کچھ مال ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے پاس چالیس دینار ہیں۔ اس نے دریافت کیا وہ کہاں ہیں؟ آپ نے فرمایا: میری صدری کے اندرونی جیب میںہیں جب اس نے صدری نکالی اور دیکھا تو اس میں واقعۃً چالیس دینار موجود تھے، اس نے پوچھا آپ کو اس کے ظاہر کرنے پر کس چیز نے مجبور کیا میں نے کہا: میری والدہ محترمہ نے مجھ سے سچ بولنے کی تاکید کی تھی۔ آپ کی زبان سے نکلے ہوئے ان کلمات کا احمد بدوی پر ایسا اثر ہوا کہ وہ رونے لگا اور کہنے لگا: آپ نے اپنی والدہ سے عہد شکنی نہیں کی، میں نے ساری زندگی اپنے پروردگار کی عہد شکنی کی، فوراً وہ میرے دست پر تائب ہوئے اور ان کے ساتھ سارے ڈاکوبھی تائب ہوگئے اور اپنی بقیہ زندگی شریعت کے مطابق گزاری۔ (بہجۃ الاسرار، قلائد الجواہر)
سن ۴۸۸ھ میں بغداد پہنچے اور مدرسہ نظامیہ میں داخلہ لے لیا، مدرسہ نظامیہ اس دور کی سب سے بڑی دینی درسگاہ تھی جس میں عالم اسلام کے نہایت قابل ترین اساتذہ کرام درس دیا کرتے تھے، آپ نے ان سے علوم شریعت حاصل کیا۔ تفسیر، حدیث، فقہ، ادب کے علاوہ تمام علوم میں مہارت حاصل کی، پھر علومِ شریعت کی تحصیل سے فراغت کے بعد کسی عارف کامل پیر و مرشد کی تلاش میں رہنے لگے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتے: اے اللہ! مجھے تیرے نیک بندوں میں پیر کامل سے ملادے۔ آپ کی دعا قبول ہوگئی اور شیخ حماد بن مسلم رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی اور ان کی صحبت نصیب ہوئی۔ حضرت حمادؒ نے آپ کی روحانی تربیت فرمائی اور حضرت حمادؒ آپ کی بہت قدر فرماتے، اپنے دیگر مریدین و خلفاء کے درمیان فرماتے: اے نادانو! تمہیں کیا معلوم کہ عبدالقادرؒ آفتاب بن کر تمام جہاں میں چمکنے والے ہیں اور تم ان کے مقابلے میں چراغوں کی طرح ٹمٹما کر رہ جاؤگے۔ شیخ کی صحبت نے آپ کے دل میں عشق الٰہی کی آگ کو خوب بھڑکایا اور مجاہدات پر آپ کے دل کو ابھارا جو راہِ طریقت کی منازل طے کرنے کے لئے ضروری تھے۔ آپ بغداد کے جنگلوں اور بیابانوں میں نکل گئے تقریباً بارہ (۱۲) سال تک چلہ کشی کرتے رہے۔ دریا دجلہ کے کنارے جاتے درختوں کے پتوں سے روزہ افطار کرتے مسلسل مجاہدات کے ذریعہ سلوک کے منازل طے کر تے تھے۔
آپ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں عبادت میں مصروف تھا اچانک زمین سے آسمان تک روشنی پھیل گئی اور اس روشنی میں سے کوئی بلند آواز میں مجھ سے مخاطب ہوکر کہا: اے عبدالقادر! میں تمہارا رب ہوں تمہاری عبادت و ریاضت سے خوش ہوکر فرائض معاف کرتا ہوں اور حرام چیزوں کو حلال کر دیتا ہوں۔ تو آپ نے یہ سن کر فوراً لاحول پڑھتے ہوئے فرمایا: جا تو شیطان مردود ہے فوراً وہ روشنی غائب ہوگئی پھر ایک آواز آئی: اے عبدالقادر! تمہیں تمہارے علم نے بچا لیا۔ آپ نے فوراً کہا: اے مردود مجھے میرے علم نے نہیں بلکہ اللہ کے فضل نے بچایا ہے۔ (طبقات کبریٰ، قلائد الجواہر، بہجۃ الاسرار)
پھر آپ مدرسہ نظامیہ میں تدریس و افتاء میں مصروف ہوگئے۔ کئی علماء و مفتیان کرام نے آپ سے دینی علوم حاصل کئے اور ہزاروں کی تعداد میں علماء کرام دینی خدمات کے لئے سارے عالم میں پھیل گئے اس طرح آ پ کا فیض ساری دنیا میں عام ہوگیا۔ تدریس و افتاء کا سلسلہ جاری تھا لیکن وعظ و نصیحت نہیں فرماتے تھے۔ سن ۵۲۱ھ آپ دوپہر کے وقت آرام فرما رہے تھے کہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرما رہے ہیں: یٰبنی لِمَ لا تتکلم اے بیٹے تم وعظ کیوں نہیں کرتے؟ تو آپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا: اَنا رجل اعجمی کیف اتکلم علٰی فصحاء العرب میں عجمی ہوں فصحائے عرب کے سامنے کس طرح زبان کھولوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا منہ کھولو۔ میں نے اپنا منہ کھولا تو رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات مرتبہ میرے منہ میں اپنا لُعابِ دہن ڈالا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے چھ (۶) مرتبہ لعاب دہن ڈالا۔ اس کے بعد میرے دل میں ایک عجیب نورانی کیفیت پیدا ہوئی۔ زبان میں قوت گویائی پیدا ہوئی تو میں نے لوگوں میں نصیحت کی خاطر ایک مجلس کا آغاز کیا۔ (قلائد الجواہر، بہجۃ الاسرار)
وعظ کی محفل میں لاکھوں لوگ تائب ہوجاتے اور ہزاروں لوگ ایمان کی دولت سے مالا مال ہوجاتے چار سو علماء قلم و دوات لے کر بیٹھتے تھے اور بیک وقت ستر ہزار سامعین آپ کا وعظ سننے آتے ، بڑے مجمع میں سامنے والا بھی اتنی آواز سے سنتا آخر صف والا بھی اتنی ہی آواز سے سنتا۔ (قلائد الجواہر، بہجۃ الاسرار)
آپ کی محفلِ وعظ کے چرچے بغداد شریف میں پھیل گئے۔ اس زمانے کے دیگر علماء و مشائخ کے محافل خالی ہوگئیں سارے لوگ آپ ہی کی مجلس و محفل میں حاضر ہونے لگے۔ حضرت مفرج بن نبہان شیبانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حسد کی وجہ سے ایک سو مستند علماء نے یہ طے کیا کہ ہم میں سے ہر ایک شخص مشکل سے مشکل مسئلہ دریافت کرکے آپ کی علمی قابلیت کا امتحان لے گا۔ یہ سب علماء جب آپ کی مجلس میں پہنچے تو آپ نے ان کے ارادوں کو بھانپ لیا اور خاموش ہوکر مراقبہ میں چلے گئے ۔ آپ کے سینے سے ایک نور نکلا اور ان سب کے سینوں سے گذرا تو وہ سب بیقرار و بے چین ہوکر رونے لگے تو آپ نے مسند ارشاد سے اتر کر سب کو اپنے سینے سے لگا لیا تو وہ خاموش ہوگئے۔ لوگوں نے ان علماء سے رونے اور بے چینی کا سبب دریافت کیا تو وہ کہنے لگے: ہم سیدنا عبدالقادر گیلانیؒ کو شرمندہ کرنے کی غرض حاضر ہوئے تھے یکلخت ہمارے قلوب سے سارے علوم سلب کرلیے گئے تو ہم بے چین ہوکر رونے لگے اور جب آپ نے اپنے سینے سے لگایا تو سارے علوم لوٹ کر آگئے۔ (بہجۃ الاسرار، قلائد الجواہر)
غوثِ پاک رحمۃ اللہ علیہ ایک مشہور سلسلہ (قادریہ) کے بانی ہیں، آپ کے سلسلہ میں داخل ہوکر لاکھوں لوگ ایمان کی حلاوت سے آشنا ہوئے اور لاکھوں غیر مسلم اسلام میں داخل ہوئے۔ آج بھی سارے عالم میں آپ کا فیض جاری و ساری ہے۔
۹۰؍ سال کی عمر میں اس دنیائے فانی سے دنیائے بقاء کی طرف ۱۱؍ ربیع الثانی بروز پیر ۵۶۱ھ رحلت کر گئے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حلاوتِ ایمانی عطا فرمائے۔ (آمین) بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔
٭٭٭