مولانا محسن پاشاہ کا بھارت میں فرقہ پرستی کی مذمت، اسلامی مقامات کی حفاظت پر زور
اس لیے ان افراد کو فرقہ پرستی چھوڑ کر اسلام قبول کرنا چاہیے تاکہ ان کی آخرت سنور سکے۔
محبوب نگر: جنوبی بھارت کے مشہور عالم دین اور سینئر صحافی اسدالعلماء مولانا محمد محسن پاشاہ انصاری قادری نقشبندی مجددی، مولوی کامل الحدیث جامعہ نظامیہ و جنرل سیکریٹری کل ہند سنی علماء مشائخ بورڈ نے کہا کہ بھارت میں 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت بننے کے بعد سے اسلام اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کو فرقہ پرستوں کی جانب سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
عید، تہواروں کے دوران مساجد، درگاہوں، خانقاہوں اور مدارس پر حملے ہو رہے ہیں، جنہیں مولانا نے سخت الفاظ میں مذمت کی۔
مولانا نے ان خیالات کا اظہار محبوب نگر کی مسجد ہاجرہ خمیس باشوار جان محمد کنٹہ محلہ مکہ مسجد میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ اگر مساجد، خانقاہوں، درگاہوں اور عیدگاہوں کے نیچے معبودانِ باطل پیدا ہو رہے ہیں یا کوئی نشانیاں ظاہر ہو رہی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ان افراد کو اسلام اور مسلمانوں سے محبت ہے۔
اس لیے ان افراد کو فرقہ پرستی چھوڑ کر اسلام قبول کرنا چاہیے تاکہ ان کی آخرت سنور سکے۔
مولانا نے قرآن کی سورہ بقرہ کی آیت 114 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ اللہ کی مساجد کی بے حرمتی کرتے ہیں، انہیں دنیا میں ذلت اور آخرت میں عذاب کا سامنا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے بھارت سے اسلام اور ایمان کی خوشبو آ رہی ہے۔ خانہ کعبہ کی چار جہتوں میں ایک جہت بھارت کی سمت ہے، جہاں کے لوگ مسجدوں میں رخ کعبہ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔
مولانا نے اس بات پر زور دیا کہ ساڑھے آٹھ سو برس قبل حضرت خواجہ معین الدین حسن سجزی المعروف حضرت خواجہ غریب نواز رحمہ اللہ نے بھارت کو امن، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دیا تھا اور ان کے ذریعے بھارت میں گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ حضرت خواجہ غریب نوازؓ کی بے حرمتی کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق اللہ کے اولیاء کی شان میں تنقیص کرنا ہے۔
مولانا نے کہا کہ آج بھارت کی سیکولر حیثیت خطرے میں ہے کیونکہ فرقہ پرست طاقتیں ملک کے تاریخی اسلامی مقامات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہی ہیں۔
بابری مسجد کے بعد بھارت کی عدالت العالیہ نے تاریخی مقامات کے حوالے سے کسی بھی تنازعے کی روک تھام کا فیصلہ کیا تھا، مگر اب حالات بدل رہے ہیں اور مسلمانوں کو پریشان کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ انہیں واپس لایا جا سکے۔
اس موقع پر جناب محمد عبدالکریم چشتی، جناب سید کریم الدین شرفی قادری، مولانا حافظ محمد ندیم راہی قادری، محمد معین مازن انصاری اور محمد محبوب قریشی سمیت دیگر اہم شخصیات بھی موجود تھیں۔