میٹ دی پریس پروگرام: معلق اسمبلی کی باتیں بی جے پی کا حربہ، اظہر الدین ناکام سیاست داں (ویڈیو)
صدر مجلس بیرسٹر اسد الدین اویسی ایم پی نے آج اس بات کی پیشن گوئی کی ہے کہ کے چندر شیکھر راؤ انتخابات کے بعد تیسری مرتبہ تلنگانہ کے چیف منسٹر کے عہدے پر فائز ہوں گے۔
حیدرآباد: صدر مجلس بیرسٹر اسد الدین اویسی ایم پی نے آج اس بات کی پیشن گوئی کی ہے کہ کے چندر شیکھر راؤ انتخابات کے بعد تیسری مرتبہ تلنگانہ کے چیف منسٹر کے عہدے پر فائز ہوں گے۔ کے سی آر کی قیادت میں گذشتہ ساڑھے نو سال کے دوران تلنگانہ کی ہمہ جہت ترقی ہوئی ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات نہیں ہوئے۔
اسد الدین اویسی آج پریس کلب بشیر باغ میں تلنگانہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس کے زیراہتمام منعقدہ ”میٹ دی پریس“ پروگرام میں صحافیوں کے سوالات کے جواب دے رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ مجلس اور بی آر ایس میں کوئی انتخابی اتحاد نہیں ہے۔ مجلس، حکومت کی کارکردگی اور پالیسی کی بنیاد پر بی آر ایس کی تائید کررہی ہے۔ تلنگانہ کے119 اسمبلی حلقہ جات کے منجملہ مجلس9 حلقہ جات سے مقابلہ کررہی ہے جس میں بی آر ایس کے خلاف بھی مجلس امیدوار میدان میں ہیں۔
کانگریس پارٹی یہ پروپگنڈہ کررہی ہے کہ مجلس کانگریس کے مسلم امیدواروں کے خلاف اپنے امیدوار ٹہرائے ہیں اور گوشہ محل سے بی جے پی کے خلاف مجلس کا کوئی امیدوار میدان میں نہیں ہے۔ اس سوال پر اسد الدین اویسی نے کہا کہ مجلس نے سابق میں گوشہ محل سے کوئی امیدوار نہیں ٹھہرایا۔
بی جے پی کو روکنے کیلئے کانگریس کے مکیش گوڑ کی تائید کی گئی۔ گزشتہ انتخابات میں بھی مجلس نے اس حلقہ سے مقابلہ نہیں کیا تھا۔ جہاں تک جوبلی ہلز حلقہ سے مجلس امیدوار کو میدان میں لایا گیا ہے اس حلقہ سے سابق میں سالارملت نے 3 مرتبہ پارٹی امیدوار کو ٹکٹ دیا تھا۔ 2004 میں ہم چناسرسیلم اور 2014میں نوین یادو کو ٹکٹ دیا تھا۔
صرف گزشتہ انتخابات میں ہم نے اپنا امیدوار نہیں ٹہرایا تھا جبکہ جوبلی ہلز میں ہمارے کارپوریٹر 4مرتبہ منتخب ہوئے ہیں۔ چنانچہ اس مرتبہ شیخ پیٹ کے کارپوریٹر فراز احمد کو ٹکٹ دیا۔
اس طرح ہم نے نظام آباد اربن سے اس لئے امیدوار نہیں ٹہرایا کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ وہاں آر ایس ایس مضبوط ہو جبکہ وہاں ہمارے 14 کارپوریٹرس اور ایک ڈپٹی مئیر ہے۔ چنانچہ ہماری حکمت عملی ہے کہ ہم نے جہاں مناسب سمجھا وہاں سے مقابلہ کیا۔
جہاں تک محمد اظہر الدین کا تعلق ہے وہ اچھے کھلاڑی ضرور ہیں لیکن وہ ناکام سیاستداں اور ناکام ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ کے ٹی راما راؤ نے انہیں حیدر آباد کرکٹ اسوسی ایشن کا صدر بنایا لیکن وہ ناکام صدر رہے ہیں۔ ان کیخلاف 4مقدمات درج کئے گئے ہیں۔
اس لئے ہم نے اپنے طاقتور کارپوریٹر کو ان کیخلاف میدان میں اتارا ہے۔ کانگریس کی جانب سے بی آر ایس اور مجلس کو بی جے پی کی بی ٹیم قرار دینے سے متعلق انہوں نے کہا کہ صدر ٹی پی سی سی ریونت ریڈی کی سیاسی زندگی آر ایس ایس اور اے بی وی پی سے شروع ہوئی ہے۔
ریونت ریڈی نے 1989 میں حلقہ کاروان سے سید سجاد کے خلاف بی جے پی امیدوار کشن ریڈی کی تائید میں مہم چلائی گئی تھی بعد میں وہ آر ایس ایس کی ہدایت پر تلگو دیشم سے وابستہ ہوئے۔ تلگودیشم کے صفایہ کے بعد موہن بھگوت کی ہدایت پر وہ کانگریس میں شامل ہوگئے۔
اس طرح گاندھی بھون کا ریموٹ کنٹرول آر ایس ایس کے چیف موہن بھگوت کے ہاتھ میں ہے، بی آر ایس اور مجلس کو انڈیا اتحاد میں شامل نہ کئے جانے سے متعلق سوال پر اویسی نے کہا کہ یہ راہول گاندھی نے کہا کہ بی آر ایس اور مجلس کے لئے انڈیا اتحاد کے دروازے بند ہیں۔ جبکہ مجلس اور بی آر ایس دونوں ملکر بی جے پی کے خلاف لڑرہے ہیں اور ہم نقصان اٹھا رہے ہیں۔
2014 اور2019 میں سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کی مرکزی قیادت کی وجہ سے مودی دومرتبہ وزیر اعظم بن گئے۔ اس کیلئے کیا ہم ذمہ دار ہیں؟۔ اس سوال پر مجلس تلنگانہ 119 نشستوں کو چھوڑ کر اتر پردیش، بہار، مہاراشٹرا میں اپنے امیدوار ٹہراتی ہے جس سے کانگریس کا نقصان ہورہا ہے۔ صدر مجلس نے کہا کہ راہول گاندھی، امیتھی میں سمرتی ایرانی کے خلاف ہار گئے کیا اس کیلئے ہم ذمہ دار ہیں؟۔
یہ پوچھے جانے پر کے سی آر نے مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات دینے کا وعدہ کیا تھا؟ ناکام ہوگئے۔ صدر مجلس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مذہب کے نام پر 4فیصد تحفظات کو برقرار نہیں رکھا بلکہ مسلمانوں کے پسماندہ طبقات کی زمرہ بندی کرتے ہوئے 4فیصد تحفظات فراہم کئے جارہے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں کے اعلیٰ طبقات کو4 فیصد تحفظات حاصل نہیں ہیں۔یہ پوچھے جانے پر کہ مجلس کا نتخابی منشور کیا ہے؟
اسد اویسی نے کہا کہ مجلس کے منتخب نمائندے روزانہ 6-5 گھنٹہ دارالسلام میں بیٹھ کر عوام کو درپیش مسائل کو حل کرتے ہیں۔ یہی ہمارا ایجنڈہ ہے۔ بی آر ایس حکومت کے اقلیتی بجٹ کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بی آر ایس نے گزشتہ9 سال میں تقریبا2ہزار کروڑ روپے خرچ کئے ہیں جس میں سب سے زیادہ مسلمانوں کی تعلیم، ٹمریزاسکولس، اوور سیز اسکالر شپس پر خرچ شامل ہیں۔
یہ پوچھے جانے پرکہ اگر انتخابات کے بعد معلق اسمبلی آتی ہے اور بی جے پی کی تائید سے بی آر ایس حکومت قائم ہوتی ہے تو ان حالات میں مجلس کی پالیسی کیا ہوگی؟ تو انہوں نے کہا کہ بی جے پی چاہتی ہے کہ معلق اسمبلی آئے اور اس کی تائید سے بی آر ایس حکومت تشکیل پائے تاکہ وہ 2024 کے انتخابات میں بی آر ایس پر دباؤ ڈال سکے۔
اسی لئے بی جے پی معلق اسمبلی کی باتیں کرر ہی ہے۔ لیکن عوام بی آر ایس کو 110 نشستوں پر اور مجلس کو9 نشستوں پر ووٹ دے کر کامیاب بنائیں گے۔ ابتداء میں وراحت علی جنرل سکریٹری نے خیر مقدم کیا۔