دہلی

ججوں پر شخصی تنقیدوں سے خطرناک صورتحال پیدا ہوسکتی ہے

پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تبصرہ کرنے پر بی جے پی کی نپور شرما کو نشانہ تنقید بنانے والے سپریم کورٹ بنچ میں شامل ایک جج نے ججوں کو ان کے فیصلوں پر شخصی تنقیدوں کا نشانہ بنانے کی پرزور مخالفت کی۔

نئی دہلی: پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تبصرہ کرنے پر بی جے پی کی نپور شرما کو نشانہ تنقید بنانے والے سپریم کورٹ بنچ میں شامل ایک جج نے ججوں کو ان کے فیصلوں پر شخصی تنقیدوں کا نشانہ بنانے کی پرزور مخالفت کی۔

جسٹس جے بی پاردی والا نے کہا کہ ججوں کو ان کے فیصلوں پر شخصی تنقیدوں کا نشانہ بنانے سے ایک خطرناک صورتِ حال پیدا ہوگی۔ واضح رہے کہ جسٹس پاردی والا اس بنچ کا حصہ تھے جس نے کہا تھا کہ بی جے پی کی سابق ترجمان کو سارے ملک سے معافی مانگنی چاہیے۔

جسٹس پاردی والا اور جسٹس سوریہ کانت نے نپور شرما کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران یہ زبانی تبصرہ کیا تھا، جس پر صارفین نے انہیں سوشل میڈیا پر نشانہئ تنقید بنایا۔ ججس نے یہ بھی سوال کیا تھا کہ نپور شرما کو کیوں گرفتار نہیں کیا گیا ہے اور ملک بھر میں جذبات بھڑکانے کا ذمہ دار کیوں نہیں ٹھہرایا گیا ہے؟

جسٹس جے بی پاردی والا نے آج یہاں ایک تقریب میں کہا کہ ججس کو ان کے فیصلوں پر شخصی تنقیدوں کا نشانہ بنانے سے ایک خطرناک صورتِ حال پیدا ہوگی، جس میں ججس کو یہ سوچنے کے بجائے کہ دراصل قانون کیا سوچتا ہے، وہی سوچنا پڑے گا جو میڈیا سوچتا ہے۔

اس کی وجہ سے قانون کی حکمرانی کو نقصان پہنچتا ہے۔ سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر ججوں کے خلاف شخصی رائے کا اظہار کیا گیا جبکہ ان کے فیصلوں پر تعمیری تنقید یا ستائش نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ سے عدلیہ کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اس کا وقار متاثر ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ججس کبھی اپنی زبان سے نہیں بلکہ صرف اپنے فیصلوں کے ذریعہ بولتے ہیں۔

ہندوستان میں جسے ایک مکمل بالغ النظر جمہوریت قرار نہیں دیا جاسکتا، اکثر خالصتاً قانونی و دستوری مسائل کو سیاسی رنگ دینے سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک بھر میں ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کو باقاعدہ بنایا جانا چاہیے تاکہ دستور کے تحت قانون کا تحفظ کیا جاسکے۔ دورِ حاضر کے سیاق و سباق میں ڈیجیٹل میڈیا کی جانب سے مقدمہ چلایا جانا انصاف رسانی کے عمل میں بے جا مداخلت ہے اور اکثر لکشمن ریکھا پار کی جاتی ہے۔