بانی جامعہ نظامیہ کے عرس کے موقع پر سالانہ جلسہ تقسیم اسناد و خلعت
سرزمین ہند کے مرکز علم و عرفان جامعہ نظامیہ کے 152 سال کی تکمیل اور بانی جامعہ نظامیہ فضیلت جنگ حضرت انوار اللہ فاروقی ؒ کے عرس کے موقع پر سالانہ جلسہ تقسیم اسناد و عطائے خلعت کا احاطہ جامعہ نظامیہ شبلی گنج میں انعقاد عمل میں آیا۔
حیدرآباد: سرزمین ہند کے مرکز علم و عرفان جامعہ نظامیہ کے 152 سال کی تکمیل اور بانی جامعہ نظامیہ فضیلت جنگ حضرت انوار اللہ فاروقی ؒ کے عرس کے موقع پر سالانہ جلسہ تقسیم اسناد و عطائے خلعت کا احاطہ جامعہ نظامیہ شبلی گنج میں انعقاد عمل میں آیا۔
مولانا سید شاہ علی اکبر نظام الدین حسینی صابری امیر جامعہ نظامیہ نے نگرانی کی جب کہ مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ نے صدارت کی۔ سالانہ جلسہ سے اپنے خطاب میں مولانا مفتی خلیل احمد نے کہا کہ اسلام کی حقیقت اور دین کی صحیح تعلیمات کو پیش کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
دینی جامعات میں سالانہ جلسے کرنا انعامات کی تقسیم کرنا خلعت و دستار بندی کا انعقاد کرنا نوجوان علماء کی ہمت افزائی ہے اور اس طرح سے لوگوں کو بھی ترغیب دی جارہی ہے۔ موجودہ دور میں علماء کے لیے ضروری ہے کہ وہ فتنوں اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اعتراضات کا جواب دینے کے لیے خود کو تیار کریں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی تعلیمات کا فروغ صرف عبادت سے یا صرف دولت نہیں کیا جاسکتا ہے۔
عبادت سے قرب خداوندی حاصل ہوتی ہے۔ دولت کا صحیح استعمال ہو تو یہ علم کے فروغ کا ذریعہ ہوسکتا ہے لیکن فتنوں اور اعتراضات کا جواب علم و حکمت سے دینے کی ضرورت ہے۔ سوال کرنے والے اور اعتراضات کرنے والوں کا جواب عبادت اور زہد سے نہیں دیا جاسکتا۔ اس کا جواب سوال کی طرح دینا ہوگا۔ مفتی خلیل احمد نے کہا کہ امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کے دور میں بعض گمراہ فرقے شروع ہوئے اور اعتراضات کا آغاز ہوا۔
ایک دہریہ نے امام اعظم ؒ سے سوال کیا کہ اللہ سب سے پہلے اور قدیم ہے تو اللہ سے پہلے کون اور کیا ہے۔ اس اعتراض کا جواب امام اعظمؒ نے علم و حکمت کے ذریعہ دیا اور کہا کہ ہندوسوں کی گنتی کی جاتی ہے تو ایک سے پہلے کیا گنتی ہے اس کا جواب دیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو مخلوق سے پہلے کی ابتداء کوئی نہیں بتا سکتا تو خالق حقیقی سے قبل کیا ہے کوئی نہیں بتا سکتا۔
ان سے پھر سوال کیا گیا کہ پھر چاروں سمتوں میں روشنی ہے تو اس کا رخ کس کی طرف ہے۔ تو امام اعظم ؒ نے ارشاد فرمایا جب نور مجازی کا رخ متعین نہیں کیا جاسکتا تو نور حقیقی کی سمت کیسے متعین کی جاسکتی ہے۔ دہریہ نے ایک اور سوال کیا کہ اللہ اس وقت کیا کررہا ہے۔ تو آپؒ نے ارشاد فرمایا کہ تو سائل ہے نیچے اتر جا اور آپؒ جواب دینے کے لیے اوپر چڑھ گئے اور ارشاد فرمایا کہ اللہ نے تجھے ذلت دی اور مجھے عزت دے رہا ہے۔
اس طرح کے مناظرے اور مکالمات صحیح تاریخ سے ثابت ہیں ان کے دہرانے کا مقصد علم و حکمت کے ذریعہ جواب دینے کو ثابت کرتا ہے۔ مفتی خلیل احمد نے کہا کہ جامعہ نظامیہ کے قیام کے 152 سال مکمل ہوچکے ہیں۔ بانی جامعہ نے اسے کسی گروپ یا فرد کے لیے قائم نہیں کیا بلکہ اسے ملت کے لیے وقف کرتے ہوئے ملت کے حوالے کردیا۔
حضرت فضیلت جنگ ؒ نے دائرۃ المعارف العثمانیہ کا قیام کیا جس کی وجہ سے دنیا بھر میں حیدرآباد کی علمی شناخت ہوئی اور مجلس احیاء المعارف النعمانیہ کا قیام عمل میں لایا جس کے ذریعہ ائمہ کرام کی کتابیں جن کے صرف نام سنے جاتے تھے ان کتابوں کی تحقیق کر کے اسے شائع کیا جانے لگا۔
جامعہ نظامیہ کی ترقی کے لیے کئی پروگرام ترتیب دیے گئے ہیں۔ اس کی ترقی اور دنیا بھر میں اس کے کارناموں کو پہونچانے کے لیے ملت اسلامیہ کے ہر فرد کو اس کا تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا ڈاکٹر محمد سیف اللہ نائب شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ نے تعلیمی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ اس سال جامعہ کے دارالاقامہ میں 700 طلبہ کے لئے مفت قیام و طعام کی گنجائش رکھی گئی ہے ماباقی طلبہ بیرونی حیثیت سے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
اس سال طلبہ کی کل تعداد 914 رہی اور کلیتہ البنات میں طالبات کی 412 رہی۔ اس طرح سے طلباء و طالبات کی کل تعداد 1326 رہی۔ مارچ میں سالانہ امتحانات میں 4792 طلبہ نے شرکت کی۔ سال آخر سندی درجات میں شرکاء امتحان کی جملہ تعداد 751 رہی اور نتیجہ 72 فیصد رہا۔ ان میں مولوی 155، عالم 161، فاضل 153، کامل تفسیر 6، کامل الحدیث 15 اور کامل الفقہ 51 شامل ہیں۔ مولوی تا کامل سال اول اور غیر سندی درجات میں امیدواروں کی تعداد 1887 رہی۔
جامعہ کے تحتانی، وسطانی، اہلخدمات شرعیہ و حفاظ میں امیدوار کی تعداد316 رہی نیز جامعہ کے ملحقہ مدارس کے سینکڑوں طلبہ نے بھی امتحانات میں شرکت کر کے مختلف درجات میں کامیابی حاصل کی۔ کلیتہ البنات میں 610 طالبات شریک امتحان رہے ان میں سے مولوی امتحان میں 118، عالم 124، فاضل 45، کامل الفقہ 15، کامل الحدیث 1، ڈپلومہ ان عربک 86 اور قرات امام عاصم کوفی میں 39 طالبات نے کامیابی حاصل کی۔
مولوی احمد محی الدین خان صاحب معتمد جامعہ نظامیہ نے سالانہ مالیاتی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ جامعہ نظامیہ محدود ذرائع آمدنی کے باوجود بہترین تعلیمی خدمات انجام دے رہا ہے جو کہ ایک کارنامہ ہے۔
انہوں نے جامعہ کے مختلف شعبوں کا تعارف کروایا اور ریسرچ سنٹر کا بھی تذکرہ کیا اور بتایا کہ ریسرچ اسکالرس کے لیے بھی شعبہ تحقیق میں وظائف دئیے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ نظامیہ کے حسابات آمدنی و خرچ کی آڈٹ چارٹرڈ اکاونٹنٹ سے کروائی جاتی ہے۔ جامعہ کے معاونین اور چندہ دہندگان کو انکم ٹیکس محکمہ سے ٹیکس میں رعایت بھی دی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سال 2022-23 میں متوقع آمدنی 6 کروڑ 97 لاکھ 38 ہزار ایک سو 24 روپئے رکھی گئی تھی اس کے مقابل مجوزہ خرچ 9 کروڑ 72 لاکھ 52 ہزار روپئے رکھا گیا ہے اس میں کمرشیل کامپلکس عثمان گنج اور مکان مغل پورہ کی تعمیر کا خرچ بھی شامل ہے۔
خسارہ بمقابلہ آمدنی 2 کروڑ 75 لاکھ 13 ہزار 8 سو 76 روپئے ہے۔ سالانہ جلسہ میں مختلف طلباء کو گولڈ میڈلس دئیے گئے ان میں سید جابر اشرف، سید شہباز، سید امین الدین حسینی، محمد عبدالحنان شعیب، بتول فاطمہ، سید ابوبکر، محمد عمران، محمد وسیم، محمد متین، سیدہ حشمت النساء، زینب ساجد، سیدہ عفیفہ کوکب شامل ہیں۔
اس موقع پر امیر جامعہ اور شیخ الجامعہ کے ہاتھوں مجلہ انوار نظامیہ اردو، مجلۃ الانوار عربی، مقاصد الاسلام گیارواں حصہ، انوار محمدی انگریزی ترجمہ، زجاجتہ المصابیح حصہ چہارم انگریزی ترجمہ، مجلس احیاء العمارف النعمانیہ عربی، دیوان شاہ خاموشؒ ہندی اور احسن التجوید نامی کتابوں کی رسم اجراء بھی عمل میں آئی۔
مولانا محمد خالد علی قادری نائب شیخ الادب نے تذکرہ بانی جامعہ نظامیہ عنوان پر خطاب کیا۔ شہ نشین پر جامعہ نظامیہ کے شیوخ، اساتذہ کرام، مشائخ عظام و معززین کی بڑی تعداد شریک تھی۔ ان میں جناب میر ذوالفقار علی رکن اسمبلی چارمینار ، پی سائی چیتنیہ ڈی سی پی ساوتھ زون اور دوسرے شامل ہیں۔ مولانا محمد انوار احمد قادری نائب شیخ التفسیر نے کارروائی چلائی اور شکریہ ادا کیا۔