یوم اساتذہ: اساتذہ کی عظمت اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا تعلیمی فلسفہ
گورنمنٹ ہائی اسکول دارالشفاء حیدرآباد کے اساتذہ جناب محمد مسعود الدین احمد اور مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کی گلپوشی جناب محمد الیاس قریشی نے کی۔

حیدرآباد: گورنمنٹ ہائی اسکول دارالشفاء حیدرآباد کے اساتذہ جناب محمد مسعود الدین احمد اور مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کی گلپوشی جناب محمد الیاس قریشی نے کی۔
بعد ازاں اظہار خیال کرتے ہوئے بتلایا کہ سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں ایک دن مسجد نبوی میں حلقہ احباب میں بیٹھے تھے۔ اور یہ وہ دور تھا جب خلافت اسلامیہ کی سرحدیں ہزاروں میلوں تک پھیل چکی تھیں اور قیصر و کسریٰ آپ کے نام سے لرزہ براندام رہتے تھے۔
کسی نے کہا امیر المومنین آپ کے دنیاوی مقام و مرتبہ کا حال سب کے سامنے ہے۔ آخرت کا حال یہ ہے کہ آپ کو زندگی میں ہی جنت کی خوشخبری دے دی گئی ہے۔ بلکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ابوبکر و عمر سیدا کھول اہل الجنۃ ابوبکر و عمر جنت کے ادھیڑ عمر لوگوں کے سردار ہیں۔ یوں جنت کے ایک طبقہ کی سرداری عطا ہونے کی بھی نوید دے دی گئی۔
امیرالمومنین! آپ سے میرا سوال یہ ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود کیا کوئی ارمان ابھی دل میں باقی ہے؟
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں میری ایک حسرت ہے کہ کاش میں معلم ہوتا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان ان اساتذہ کے لئے مشعل راہ ہے جو دیگر پیشوں اور حکومتی مناصب کے ٹھاٹھ باٹھ، سہولتیں اور تنخواہیں دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتے اور حسرت و پچھتاوے سے دو چار رہتے ہیں۔ یہ درد و غم کی کیفیت اس لئے ہے کہ بدقسمتی سے معلمین کی اکثریت پیشہ تدریس کو صرف روزی اور حصول زر کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معلمی صرف ایک پیشہ نہیں، ایک بہت بڑی نعمت اور اعزاز ہے، اس لئے کہ تمام پیغمبر انسانیت کے معلم تھے۔ خود سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’انما بعثت معلما‘‘
’’میں معلم ہی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘
یہ ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مسلمان استاد کو عزت و سرفرازی کے آسمان پر پہنچا دیتا ہے، کیونکہ اس فرمان مبارک کی روشنی میں وہ:
- وراثتِ پیغمبری کا امین ٹھہرتا ہے۔
- اور مسند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وارث قرار پاتا ہے۔
پیغمبرانہ وراثت کا امین بننے اور مسند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وارث قرار پانے سے بڑا منصب اور مقام و مرتبہ بھلا کسی مسلمان استاد کے لئے کوئی متصور ہو سکتا ہے؟ ہر صاحب شعور کے پاس یقیناً اس کا جواب نفی میں ہی ہو گا۔ طالبان علم کی تعلیم و تربیت کے لئے ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتنے فکر مند تھے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ملاحظہ فرمائیے:
قال صلی الله عليه: "سياتيكم اقوام يطلبون العلم فاذا رأيتموهم فقولوا لهم مرحباً مرحباً بوصية رسول اللّٰه و اقنوهم.”
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا عنقریب لوگ علم کی طلب میں تمہارے پاس آئیں گے، انہیں دیکھو تو انہیں خوش آمدید کہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصیت کے ساتھ خوش آمدید اور (پھر) انہیں تعلیم سے مالا مال کر دو۔
دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:
"اذا جاءكم فاستوصوا بهم خيراً.”
جب وہ تمہارے پاس آئیں تو انہیں بھلائی کی تلقین کرو۔ ابن ماجہ کی روایت میں ہے:
"جب علم کی تلاش میں تمہارے پاس آئیں تو فَرَحبّوْهُمْ وَحَيُّوْهُمْ وَعَلِّمُوْهُمْ.”
تم انہیں مرحبا کہو، ان کی زندگی سنوارنے کا سامان کرو اور انہیں تعلیم دو۔
اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مسلمان استاد کو صرف تعلیم دینے والے کے روپ میں ہی نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ آپ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے طلباء کے لئے خیر خواہ اور سراپا شفقت و مہربانی بن جائے اور اس کی شفقت و حسن اخلاق طلباء کے پاؤں کی زنجیر بن جائے تاکہ وہ بڑی نیاز مندی اور شکر گزاری کے ساتھ علم کی پیاس بجھا سکے۔ اگر معلم کو اس کے تلامذہ کی حالت بے چین نہیں کرتی، ان کی فکر میں اس کی آنکھیں نہیں بھیگتیں‘ ان کی خیر و فلاح کے لئے بارگاہ ایزدی میں ہاتھ نہیں اٹھتے تو سمجھ لے کہ وہ ابھی مسند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وارث کہلانے کا حق دار نہیں بنا، کیونکہ وہ اس مکرم ہستی کی مسند کا وارث ہے جس کی درد مندی اور دلسوزی اور خیر خواہی کو قرآن مجید ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
ہمارے ملک ہندوستان میں ہر سال 5 ستمبر کو ٹیچرس ڈے یعنی یومِ اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ جبکہ عالمی سطح پر ٹیچر ڈے، یوم اساتذہ کا انعقاد 5 اکتوبر کو ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں 5 ستمبر کو ٹیچرس ڈے منانے کی روایت اس وقت شروع ہوئی جب سابق صدر جمہوریہ سروے پلی رادھا کرشنن نے ملک کے دوسرے صدر جمہوریہ کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا۔ واضح رہے کہ رادھا کرشنن جی ایک ماہر تعلیم، فلسفی اور عظیم سیاستدان تھے، تعلیمی میدان کے ماہر شہسوار اور صاحب قلم و قرطاس ہونے کی وجہ سے انہیں ہندوستان کی آزادی کے بعد بھارت رتن کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انہوں نے اپنی عمر کے چالیس سال تعلیم و تعلم میں صرف کیے تھے، کلکتہ یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں بحیثیت استاد اپنی خدمات انجام دی تھیں، وہ تعلیمی میدان کے نبض شناس اور اس کے ابرو کو سنوارنے والے تھے اور ان کے تلامذہ ملک اور بیرون ملک میں پھیلے ہوئے تھے۔ جب وہ صدر جمہوریہ کے عہدے پر فائز ہوئے تو ان کے چند شاگردوں نے ان کا یوم پیدائش منانے کی اجازت چاہی تو انہوں نے یوم پیدائش منانے کی اجازت دینے کے بجائے اس دن کو بحیثیت ”یوم اساتذہ“ منانے کا مشورہ دیا۔
سروے پلی رادھا کرشنن ایک تلگو برہمن خانوادے میں مدراس میں واقع تھیروتانی کے قریب ایک گاؤں میں 5 ستمبر 1888 کو پیدا ہوئے۔ یہ گاؤں صوبہ آندھرا پردیش اور تمل ناڈو کی سرحد پر موجود ہے۔ ان کے والد کا نام سروے پلی ویرا سوامی اور والدہ کا نام سیتاما تھا۔ ان کی ابتدائی زندگی کے پل تروتانی اور تروپتی میں گزرے۔ ان کی ابتدائی تعلیم تروتانی کے بورڈ ہائی اسکول میں ہوئی۔ وہ فلسفہ کے طالب علم تھے، ان کے والد بھی فلسفہ کے طالب علم رہ چکے تھے۔ ان کے والد نے اپنی کتابیں ان کے حوالے کر دی تھیں اور یہیں سے انہوں نے پڑھنے کا منصوبہ تیار کیا، اور پھر وہ ایک عظیم استاد بنے۔ اسی مناسبت سے پورے ملک میں ہر سال 5 ستمبر کو ”یوم اساتذہ“ منایا جاتا ہے اور اساتذہ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اور ان سے اپنی والہانہ محبت و عقیدت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر اساتذہ و معلمات کے فرائض انجام دینے والے طلباء و طالبات کو بھی تہنیت و گلپوشی کی گئی ہے۔