شمالی بھارت

یوپی میں ریسٹورنٹس کے مالکین کی آمدنی میں شدید کمی کا اندیشہ۔ ہندو اور مسلمان دونوں متاثر

یومیہ اجرت پر کام کرنے والے برجیش پال گزشتہ 7 سال سے شراون کے دو مہینوں کے دوران اپنے مسلم مالک کو گاہکوں کی کثیر تعداد خاص کر کنواڑیوں کی ضرورت پوری کرنے میں مدد کے لئے مظفر نگر کے کتھولی علاقہ میں سڑک کے کنارے ایک ڈھابے پر کام کیا کرتا تھا۔

مظفر نگر: یومیہ اجرت پر کام کرنے والے برجیش پال گزشتہ 7 سال سے شراون کے دو مہینوں کے دوران اپنے مسلم مالک کو گاہکوں کی کثیر تعداد خاص کر کنواڑیوں کی ضرورت پوری کرنے میں مدد کے لئے مظفر نگر کے کتھولی علاقہ میں سڑک کے کنارے ایک ڈھابے پر کام کیا کرتا تھا۔

متعلقہ خبریں
ٹیچرس کی ہراسانی، مسلم طالبہ کی خود کشی

اسے کام کے لئے ہر روز 400 تا 600 روپئے اور کم از کم دو وقت کا کھانا ملا کرتا تھا۔ تاہم اس سال برجیش پال کے مالک نے اسے دوسرا کام ڈھونڈنے کے لئے کہا کیونکہ وہ اس اندیشے کے تحت اضافی عملے کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ اتردپش حکومت کی جانب سے کانوڑ یاترا کے راستے پر واقع ہوٹلس، ریسٹورنٹس، غذا کے ٹھیلوں اور کھانے کی دکانات کے مالکان کو نام آویزاں کرنے کے لئے جاری کئے گئے احکامات کی وجہ سے اس کی آمدنی متاثر ہوگی۔

اترپردیش حکومت نے مظفر نگر پولیس کی جانب سے حکم جاری کرنے کے بعد متنازعہ حکم کو ریاست بھر کے لئے جاری کیا۔ اترکھنڈ کے چیف منسٹر پشکر سنگھ دھامی نے کہا کہ ان کی ریاست میں بھی اس نوعیت کی ہدایات موجود ہیں۔ اس حکم پر ایک تنازعہ پیدا ہوگیا۔ اپوزیشن جماعتوں، شہری سماج اور حتی کہ چند برسر اقتدار اتحاد کے قائدین نے اس پر تنقید کی۔

برجیش پال نے بتایا کہ یہ آمدنی کا ایک اچھا ذریعہ تھا کیونکہ اس سیزن میں دیگر کام تلاش کرنا نہایت ہی مشکل ہے۔ مانسون کے سیزن میں تعمیراتی اور زرعی کام نہیں ملتا۔ پال نے کہا کہ میں ایک ہفتہ قبل ڈھابے میں کام شروع کیا مگر اب مالک نے کہا کہ میں دوسری جگہ پر کام تلاش کروں۔ میوے کے چھوٹے بیوپاری اور دھابوں کے مالکین کو اندیشہ ہے کہ اس اقدام سے ان کی آمدنی شدید متاثر ہوگی۔

دھابے کے مالک نے کہا کہ انہیں اندیشہ ہے کہ کنواڑی ان کے مسلم نام کی وجہ سے ان کے دھابے میں نہیں کھائیں گے۔ اس راستے پر ہر تیسرے ڈھابے کی طرح میرے ڈھابے کا نام بابا کا دھابا ہے۔ میرے عملے میں نصف سے زائد ہندو ہیں‘ ہم یہاں صرف ویجیٹرین غذا فراہم کرتے ہیں۔ اور حتی کہ شرون (مانسون) کے دوران لہسن اور پیاز سے بھی گریز کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود ایک مالک کی حیثیت سے مجھے اپنا نام آویزاں کرنا ہے۔ میں نے دھابے کا نام بدلنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کنواڑی ایک مسلمان کا نام دیکھ کر میرے دھابے میں آکر نہیں کھائیں گے۔ مذکورہ دھابے کے مالک نے کہا کہ اس نوعیت کے محدود کاروبار کے ساتھ میں جاریہ سال اضافی ملازم رکھنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

لاکھوں شیو یاتری جنہیں کنواڑی کہا جاتا ہے، ہر سال شراون کے دوران گنگا سے پانی لینے کے لئے ہری دوار کا دورہ کرتے ہیں، اس حکم سے نہ صرف مسلم مالکین اور ان کے عملے کی آمدنی متاثر ہوئی بلکہ ہندو مالکین کی ہوٹلوں میں کام کرنے والے مسلم عملہ بھی متاثر ہوا۔ کھتولی میں بڑی مارکٹ کے باہر سڑک کے کنارے ریسٹورنٹ چلانے والے مالک انیمیش تیاگی نے کہا کہ میری رسٹورنٹ میں تندور پر ایک مسلم شخص کام کیا کرتا تھا۔

مگر اس مسئلہ کی وجہ سے میں نے اسے الگ ہونے کے لئے کہا کیونکہ لوگ اس پر ایک مسئلہ بنا سکتے تھے۔ ہم یہاں اس نوعیت کی گڑبڑ نہیں چاہتے۔ تیاگی نے کہا کہ اس نے تندور پر کام کرنے کیلئے اس بار ایک ہندو کو بلایا ہے۔چند دیگر دھابوں کے مالکین نے سرکاری حکم میں اس بارے میں مخصوص ہدایات کے فقدان کی شکایت بھی کی کہ ان کے آوٹ لیٹس پر کس طرح نام لگائے جائیں۔

ضلع میں کانوڑ یاترا کے راستے پر ایک ٹی اسٹال چلانے والے دیپک پنڈت نے کہا کہ انتظامیہ نے ایک حکم جاری کیا مگر مخصوص رہنمایانہ خطوط جاری نہیں کئے۔ مالک کے لکھے جانے والے نام کے فاؤنٹ اور اس کے سائز کے بارے میں رہنمایانہ خطوط نہیں ہیں۔ لوگ مقامی انتظامیہ حتی کہ اپنے علاقہ کے منتخب نمائندوں سے رجوع ہوئے۔

کتھولی حلقہ کے آر ایل ڈی رکن اسمبلی مدن بھیا نے کہا کہ انہیں بھی حکم سے متاثر ہونے والی مقامی ریسٹورنٹس سے شکایت موصول ہوئی ہیں۔رکن اسمبلی نے کہا کہ یہ دکھائی دیتا ہے کہ نام لگانے کا حالیہ حکم جلد بازی میں جاری کیا گیا ہے۔ اس سے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے غریبوں اور چھوٹے دکانداروں کو زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔

مدن بھیا نے کہا کہ وہ حکم سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لئے اپنی پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ زمینی سطح پر تال میل پیدا کررہے ہیں۔ ہمارا نظریہ مذہب اور ذات کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے امتیاز کے خلاف ہے۔ سماج وادی پارٹی کی ضلع یونٹ کے ایک دفتری اہل کار بھوان جوشی نے کہا کہ حکم کا مقصد سماج میں منافرت پھیلانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کنواڑیوں کی جانب سے استعمال کیاجانے والا 240 کلو میٹر راستہ مظفر نگر ضلع سے گزرتا ہے، اس راستہ پر ہزاروں چھوٹی ریسٹورنٹ اور غذا کے اسٹالس واقع ہیں۔ اس حکم سے وہاں کام کرنے والا ہر ایک شخص متاثر ہوگا۔

جوشی نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ یہ حکم ریاستی حکومت کی ہدایت پر مذہب کی بنیاد پر سماج میں منافرت پھیلانے کی محض ایک کوشش دکھائی دیتا ہے۔ ریاستی حکومت نے بڑھتی ہوئی تنقیدوں کے باوجود حکم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ یقینی بنائے گی نظم وضبط کی کوئی صورتحال پیدا نہ ہو اور کنواڑیوں میں کوئی الجھن نہ رہے۔ ضلع پولیس نے کہا ہے کہ رضاکارانہ طور پر حکم پر عمل کیا جارہا ہے۔

a3w
a3w