مذہب

عورت کے لئے ایک ہی خاوندکیوں؟

ح صرف جنسی تسکین اور صنفی پیاس بجھانے کا ہی ذریعہ نہیں ہے؛ بلکہ آپسی محبت و مودت اور باہمی الفت و ہمدردی کا بھی ذریعہ ہے، نکاح کا ایک اہم مقصد چین وسکون اور طمانینت ِقلب بھی ہے

مفتی محمدعبداللہ قاسمی
استادفقہ وادب دارالعلوم حیدرآباد

اس وقت امت ِ مسلمہ جن کٹھن اور صبر آزما حالات سے گزر رہی ہے وہ کسی حساس اور دردمند دل رکھنے والے شخص پر مخفی نہیں ہے،ایک طرف داخلی فتنوں اور اندرونی خلفشار نے ملت ِ اسلامیہ کو نقصان پہنچایا ہے تو دوسری طرف یہود ونصاریٰ کی طرف سے کی جانے والی مسلسل ذہنی، فکری اور ثقافتی یلغار نے اس کو مردۂ نیم جان کردیا ہے، مغربی مفکرین ودانشوروں نے جہاںایک طرف اپنی محدود اور کوتاہ عقل سے اسلامی تعلیمات کو ہدف تنقید بنایا ہے، تو دوسری طرف اپنی ہرزہ سرائیوں اور ریشہ دوانیوں سے اسلامی تعلیمات میں تشکیک پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی ہے، حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب کہ اسلام کی طرف خود کو منسوب کرنے والے نام نہاد مفکرین بھی افرنگی خیالات سے مرعوب اور متأثر ہوکر مغرب کے طریقۂ کار کی پرزور وکالت کرتے ہیں اور اسلام کے حکیمانہ ومنصفانہ نظام کو قابل ترمیم وتنسیخ قرار دیتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اسلام مخالف لٹریچر کے ذریعہ ان کے دل ودماغ میں اسلام دشمنی اور دین بیزاری کا ا یسا زہر اتار دیا گیا ہے کہ ان کی فطرت مسخ ہوچکی ہے، اور وہ زہر کو قند اور گندے پانی کو آب زلال سمجھ بیٹھے ہیں، مغرب کی طرف سے آنے والی ہر آواز ان کے لیے فردوس گوش اور سامعہ نواز ثابت ہوتی ہے اور اسلامی احکام وہدایات ان کی طبع پر بھاری اور گراں محسوس ہوتا ہے۔

چنانچہ آج کل مغربی آقاؤں اورمغربی تہذیب پرایمان بالغیب لانے والوں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جاتاہے کہ مسلم مرد چار بیویاں رکھ سکتا ہے تو خاتون چار شوہر کیوں نہیں رکھ سکتی؟ یہ سوال کوئی نیا سوال نہیں ہے، بلکہ مغرب کی طرف سے بارہا اس طر ح کے سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں اور وقتا فوقتا اسلام کی طرف خود کومنسوب کرنے والے مفکرین بھی -جو مغربی تہذیب کے پُرفریب تمدن سے مرعوب ہیں،اور مغربی تہذیب کے بد نما چہرے پر جو رنگین نقاب پڑی ہوئی ہے اس سے ان کا تارِ نظر الجھ گیا ہے -وہ لوگ بھی سستی شہرت اور جھوٹے نام و نمود کی خاطر اس طرح کے سوالات اٹھاتے رہتے ہیں۔

مرد جب چار شادیاں کرسکتا ہے تو عورت چار شادیاں کیوں نہیں کرسکتی ہے؟یہ سوال بھی در اصل زن وشو کے مابین مساوات کے پروپیگنڈہ کا حصہ ہے، اگر میں ان مغرب زدہ مفکرین سے یہ سوال کروں کہ دنیا کے تمام ممالک میں جو اصول وقوانین وضع کیے گئے ہیں ان میں ملکی اور غیر ملکی باشندوں کے مابین فرق کیوں کیا گیا ہے؟ جو حقوق ومراعات ملکی باشندوں کو حاصل ہوتے ہیں، و ہ غیر ملکی باشندوں کو کیوں حاصل نہیں ہوتے؟ تو پتہ نہیں کہ میرے اس سوال کا وہ کیا جواب دیں گے؟یہ سوال ایک دفعہ ابو حنیفہ نعمان بن ثابتؒ سے کیا گیا، سوال کرنے والی عورتیں تھیں، آپ سوال سن کر الجھن میں پڑ گئے اور کہا کہ اس کا جواب کسی اور وقت دوں گا اور اسی الجھن کے ساتھ گھر کے اندر تشریف لے گئے، آپ کی صاحبزادی حنیفہ نے الجھن کی وجہ دریافت کی تو آپ نے اپنی الجھن یعنی عورتوں کا سوال پیش کردیا، یہ سن کر صاحبزادی نے عرض کیا کہ اگر آپ اپنے نام کے ساتھ میرے نام کو بھی شہرت دینے کا وعدہ کریں تو میں عورتوں کو اس کا جواب دے سکتی ہوں، جب آپ نے وعدہ کرلیا تو صاحبزادی نے کہا کہ عورتوں کو میرے پاس بھجوادیجئے، چنانچہ جب عورتیں آگئیں تو صاحبزادی نے ایک ایک پیالی ہر عورت کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ اپنی اپنی پیالی میں تم سب تھوڑا تھوڑا اپنا دودھ ڈال دو، جب انہوں نے ایسا کیا تو ایک بڑا پیالہ ان کو دے کر کہا کہ اب سب پیالیوں کا دودھ اس میں ڈال دو،اور جب عورتوں نے یہ عمل بھی کردیا تو کہا کہ اب تم سب اس پیالے سے اپنا ا پنا دودھ نکال لو،عورتوں نے کہا کہ یہ تو ناممکن ہے، تب صاحبزادی نے کہا کہ جب کئی شوہروں کی شرکت تمہاری اولاد میں ہوگی توتم یہ کیوں کر بتلا سکوگی کہ یہ اولاد کس شوہر کی ہے؟ اس جواب سے وہ عورتیں ششدر رہ گئیں اور امام صاحب نے اسی دن سے ابو حنیفہ کنیت اختیار کرلی۔

اسلام نے مرد کو چار عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی ہے، اور عورت کو ایک وقت میں صرف ایک مرد سے رشتۂ ازدواج قائم کرنے کا پابند بنایا ہے، اس کے پیچھے بہت سی اجتماعی ،سماجی اور معاشرتی حکمتیں کار فرماہیں:

نزاع اورجھگڑے کاسبب

اگر ایک عورت ایک ہی وقت میں کئی مردوں سے ازدواجی تعلق قائم کرتی ہے تو جس ملک اور جس شہر میں یہ لوگ بستے ہیں ، ظاہر ہے کہ سب کے کام کاج اور کسب ِ معاش کے لئے دوڑ دھوپ کا وقت ایک ہوگا، اور سب کے گھر پہنچنے اور آرام کرنے کا وقت ایک ہوگا، ایسی صورت میں ممکن ہے سب کو ازدواجی تعلق قائم کرنے کی ضرورت پیش آئے، اور عجب نہیں کہ اس سلسلے میں نزاع اور جھگڑے کی نوبت پیش آجائے اور یہ نزاع قتل وغارت گری، اور کشت وخون پر منتج ہو۔

ذہنی اطمینان وسکون کا فقدان

نکاح صرف جنسی تسکین اور صنفی پیاس بجھانے کا ہی ذریعہ نہیں ہے؛ بلکہ آپسی محبت و مودت اور باہمی الفت و ہمدردی کا بھی ذریعہ ہے، نکاح کا ایک اہم مقصد چین وسکون اور طمانینت ِقلب بھی ہے، مرد آفس سے تھک کر مختلف مزاج کے حامل لوگوںکا سامنا کرکے پریشان اور کبیدہ خاطر شام گھر لوٹتا ہے ، تو ضروری ہے کہ عورت شوہرکا بہترین انداز میں استقبال کرے، اپنی شیریں اور حلاوت آمیز گفتگو کے ذریعہ اس کا دل لبھائے، اس کی جسمانی خدمت کرکے اس کو ذہنی سکون بہم پہنچائے؛ تاکہ دن بھر آفس میں کام کرنے کی وجہ سے جو تھکان، ٹینشن اور مزاج میں چڑ چڑا پن پیدا ہوگیا تھا، وہ اثرات زائل ہوجائیں اور از سر نو چست ،چاق وچوبند اور شاداں وفرحاں اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لئے تیار ہوجائے، اگر عورت ایک وقت میں ایک سے زائد مردوں سے ازدواجی تعلق قائم کرتی ہے تو ہر مرد کی خدمت کرنا، اس کو ذہنی سکون بہم پہونچانا اور اپنی شیریں اور میٹھی گفتگو سے اس کا غم بھلانا ناممکن ہے، ظاہر ہے کہ جب مرد کو گھر میں ذہنی طور پر سکون واطمینان میسر نہ آئے گا تو گھر سے آفس پریشان، رنجیدہ اور کبیدہ خاطر جائے گا، اور ایسی حالت میں لازمی طور پر وہ معتدل انداز میں سنجیدگی کے ساتھ اپنی ڈیوٹی انجام نہیں دے سکے گا،اور محفوظ اور مجتمع قوتوں کے ساتھ تعمیری کام نہیں کرسکے گا، اور وہ معاشرہ جس میں تمام ملازمین اور کارکنان کا یہی حال ہو، اس کے تمام شعبہ ہائے عمل مفلوج اور ناکارہ ہوجائیں گے، اور اس پر جو اجتماعی، سیاسی اور معاشی نقصانات مرتب ہوں گے وہ مخفی نہیں ہے۔

عورت کی صحت پر برا اثر پڑنے کا خطرہ

یہ ایک عام مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ عورت شادی سے پہلے کم بیمار ہوتی ہے؛ لیکن جب اس کی شادی ہوجاتی ہے اور صنفی عمل سے گزرتی ہے تو نسبتا بیمار زیادہ پڑتی ہے، دوسری طرف عورت کو وقفے وقفے سے قدرتی طور پر جسمانی امراض وعوارض پیش آتے رہتے ہیں، مثلاً ہر مہینے تین سے دس دنوں تک اسے ماہواری آتی ہے، ان ایام میں اخراجِ خون کی وجہ سے وہ کمزور اور لاغر ہوجاتی ہے، نیز ان ایام میں عورت سے صحبت طبی لحاظ سے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے، ایامِ حمل میں چوں کہ وہ اپنے خون سے انسانیت کی کھیتی کوسینچتی ہے اور اپنی بے مثال قربانی وجگر کاوی سے جنین کو آب حیات عطا کرتی ہے؛اس لئے ان ایام میں بھی اس کے ضعف ولاغری کا بڑھ جانا یقینی ہے، بچے کی ولادت کے بعد خصوصاً جب کہ ولادت کا عمل آپریشن کے ذریعہ انجام پایا ہو تو ایک لمبے عرصے تک کے لئے وہ صاحب فراش ہوجاتی ہے، اور اپنی جسمانی وطبعی ضروریات کی تکمیل کے لئے بھی دوسروں کی دست نگر بن جاتی ہے، ان حالات میں اگر ایک عورت کے لئے ایک وقت میں متعدد مردوں سے ازدواجی رشتہ قائم کرنے کی اجازت دی جائے اور صنف ِ نازک پر بیک وقت کئی مردوں کی خواہش کی تکمیل کی ذمہ داری ڈالی جائے تو یہ عورتوں کے لئے طبی لحاظ سے کافی نقصان دہ ہوگا اور عورت میں بیماری کے خطرات بہت حد تک بڑھ جائیں گے۔

اولادکی تقسیم ناممکن

عورت کی حیثیت کھیت کی ہے، جس طرح بارش کی وجہ سے کھیتی لہلہا اٹھتی ہے اور پیداوار کی صورت میں کاشتکار کو تحفہ عطا کرتی ہے، اسی طرح مرد ازدواجی رشتہ قائم ہونے کے بعد عورت کو ثمر آوار کرتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ اگر ایک اولاد پیدا ہوئی تو یہ کس مرد کی ہو گی؟اگر متعدد اولاد پیدا ہوتی ہے تو جنس کا بھی اختلاف ہوگا، شکل وصورت بھی الگ الگ ہوگی، اخلاق وعادات اور سیرت سب کی یکساں نہیں ہوگی،ان صورتوں میں وہ کیا معیار ہے جس سے تقسیم اولاد کا فریضہ انجام دیاجائے گا؟

بچے کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری

اسلام میں فقراء اور مساکین کا تعاون کرنے اور ان کی دست گیری کرنے کی تاکید کی گئی ہے، معاشرے میں جو کمزور اور بے بس لوگ ہوتے ہیں ان کی مادی ضروریات کی تکمیل کی ذمہ داری مالدار اور خوشحال لوگوں کے کاندھوں پر ڈالی گئی ہے، یتیم اور بیواؤں کی مالی امداد کرنے اور ان کی پریشانیوں کو دور کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، اب سوال یہ ہے کہ اگر ایک اولاد پیدا ہوئی تو اس کے علاج ومعالجہ، تعلیم اور دیگر بنیادی ضرورتوں کا انتظام کون کرے گا؟بچے کی بنیادی ضرورتیں صرف مالیہ فراہم کرنے اور معاشی وسائل مہیا کرنے سے مکمل نہیں ہوتی ہیں؛ بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہم اور کٹھن ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ اس کو صحیح اخلاق وعادات کا حامل بنایا جائے، ایثار، قربانی، ضبط نفس اور صبر وتحمل جیسی اعلیٰ صفات سے آراستہ کیا جائے، اس کی فکری استعداد اور خداداد کمالات کو صحیح رخ دیا جائے؛ تاکہ یہ بچہ بڑا ہونے کے بعد کارخانۂ عالم کا ایک مضبوط اور صالح فرد ثابت ہوسکے، اور اپنی محفوظ اور مجتمع قوتوں کے ساتھ تعمیر تمدن میں قابل قدر کردار ادا کرسکے؛ لیکن بچے کے آئینۂ قلب پر اخلاق وکردار کی صورت گری کا عمل انجام دینے کے لئے ایک طرف گھر کی فضا کا خوشگوار اور سکون بخش ہونا ضروری ہے تو دوسری طرف مصور کی توجہ ایک تصویر پر پوری طرح مبذول ہونا بھی ناگزیر ہے، لیکن جو گھر خاوند کی کثرت کی وجہ سے بازار نظیر بنا ہو اور سب کے دل ودماغ پر جنسی خواہش پوری کرنے کی فکر سوار ہو اور باہمی نزاع اور آپسی جھگڑوں کی وجہ سے گھر کا ماحول جہنم کدہ بنا ہوا ہو تو ایسے حالات میں نسل نو کی تربیت ہوگی تو کیسے؟ اس کے اخلاق وعادات کو سنوارا جائے گا تو کیسے؟

اشتباہ نسب

اولاد متعدد ہونے کی صورت میں اگر کسی طرح اولاد کی تقسیم کا فریضہ بھی انجام دے دیا جائے توچوں کہ میڈیکل تحقیقات کے مطابق عورت کو قرارِ حمل غیر متعین وطی واحد سے ہوتا ہے، متعدد وطی کے مجموعے سے عورت کو استقرار حمل نہیں ہوتا ہے، لہذا یہ تعیین نہیں ہوپائے گی کہ جس مرد کے حصہ میں جو اولاد آئی ہے وہ اسی کی بوئی ہوئی بیج ہے یا دوسرے کی؟ چنانچہ تقسیم اولاد کے بعد بھی یہ فکر عورت کے خاوند کو مسلسل پریشان اور کبیدہ خاطر کیے رکھے گی، اور یہ چیز مسلسل اس کے دل ودماغ پر چھائی رہے گی۔

بچے کی نشو ونما غیر معتدل ہوگی

دوسری طرف انسان کے بچے کو قدرت نے تمام حیوانات کے بچوں سے زیادہ کمزور اور بے بس پیدا کیا ہے، انسان کا بچہ کئی سال تک ماں باپ کی حفاظت اور تربیت کا محتاج ہوتا ہے، اور اس میں اپنے آپ کو سنبھالنے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی قابلیت بہت دیر میں پیدا ہوتی ہے، اسی وجہ سے بچہ ماں باپ کی مکمل توجہات وعنایات کا محتاج ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قدرت نے ماں باپ کے دل میں بچے کی اتھاہ محبت رکھ دی ہے، جس کی وجہ سے باپ اپنی اولاد کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے، اس کی راحت وآرام کے لئے اپنے عیش وآرام کو تج کردیتا ہے، اس کی خوشیوں کو دوبالا کرنے اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے کے لئے رنج والم اور بے شمار کلفتوں کو برداشت کرلیتا ہے، ان سب کے پیچھے دراصل یہ فکر کار فرما ہوتی ہے کہ یہ میری بوئی ہوئی بیج ہے، میری محنت اور کاوش کا پھل ہے؛ لیکن جب اسے یہ محسوس ہوجائے کہ یہ میری بوئی ہوئی بیج نہیں ہے ، یہ تو دوسرے کی محنت وکاوش کا ثمرہ ہے تو پھر آدمی کی جو توجہات وعنایات بچے کی طرف مبذول ہونی چاہئے وہ مبذول نہیں سکتیں؛ بلکہ وہ بچے کو وبالِ جان اور ناپسندیدہ تحفہ خیال کرتا ہے، اور اس سے پیچھا چھڑانے میں ہی عافیت سمجھتا ہے، اور اگر ماں باپ کی توجہات پورے طور پر بچے کی طرف نہ ہوں تو لازمی طور پر بچے کی جسمانی نشوونما غیر معتدل ہوگی، اور وہ بچہ ظاہری ساخت کے ساتھ باطنی کمالات میں بھی ناقص ہوگا، اور جس قوم میں ایسے جسمانی اورذہنی لحاظ سے ناقص افراد کی کثرت ہو وہ قوم علوم وفنون ، صنعت و حرفت اور معیشت وسیاست کے میدان میں مفلوج اور ناکارہ ثابت ہوتی ہے، اور تعمیر تمدن اور خدمت ِ انسانیت میں کوئی قابل قدر کردار ادا نہیں کرسکتی۔

قومی پرورش خانہ کی ایک غیرمعقول اوراحمقانہ تجویز

ایک عورت کے لیے متعدد خاوند کے حامی لوگ کہتے ہیں کہ بچوں کی حفاظت ونگہداشت اور اس کی تعلیم وتربیت کے لیے ایک قومی نظام ہونا چاہیے، جس میں قومی کارندے بچے کی تعلیم وتربیت کا انتظام کریں اور ان کو پال پوس کر تعمیرتمدن میں حصہ لینے کے قابل بنائیں، اس صورت میں عورت کے متعدد خاوند ہونے کی صورت میں تقسیم اولاد کے حوالے سے کسی قسم کے جھگڑے اور نزاع کی صورت پیش نہ آئے گی، لیکن یہ تجویز مندرجہ ذیل وجوہات سے غیر معقول اور ناقابل عمل ہے:

فطرت سے بغاوت

نوامیس فطرت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے گوحیوانات میں بھی اپنے بچوں سے محبت کا فطری داعیہ رکھا ہے، لیکن انسان کے اندر اولاد سے محبت کا داعیہ اوجِ کمال کو پہونچا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ حیوانات کے بچے چند ایام میں چلنے پھرنے کے قابل ہوجاتے ہیں اور جب حوادثِ زمانہ کا سامنا کرنے کی صلاحیت ان میں پیدا ہوجاتی ہے، تو وہ اپنے ماں باپ سے ایسے جدا ہوتے ہیں کہ پھر والدین اور ان کے بچوں کے مابین کوئی راہ ورسم بھی باقی نہیں رہ جاتا، حتی کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان بھی نہیں پاتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حیوانات میں ذکورواناث کے ما بین صنفی تعلق سے فطرت کا منشا بقاء نسل ہے اور بس، اس کے برخلاف آپ انسانی بچے کی تخلیق پر غور کریں کہ حضرت انسان عقل ودانش کے جوہر سے آراستہ ہونے کے باوجود ، نفع ونقصان اور خیر وشر میں تمیز کی صلاحیت رکھتے ہوئے بھی آخر اپنی بوئی ہوئی بیج کو صالح اور مفید بنانے پر کیوں آمادہ ہوجاتا ہے؟

آخر وہ کون سی چیز اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے خون پسینے کی گاڑھی کمائی عورت اور اس کے بچے پر صرف کرے؟ کیوں وہ دوسری حسین وجمیل دوشیزاؤں کو چھوڑ کر اس حاملہ عورت سے دل لگائے رکھتا ہے جس کے چہرے کی رعنائی و زیبائی رخصت ہوگئی ہے، اور جسم کی ساخت غیر معتدل ہونے کی وجہ سے اس کی مقناطیسیت اور کشش ختم ہوگئی ہے؟ آخر کیوں گوشت پوست کے ایک معطل اور بے کار لوتھڑے کو اپنے خرچ پر پالتا ہے، آخر کیوں اس کی چیخوں سے اپنی نیندوں کو حرام کرتا ہے؟ آخر اس بچے کو کیوں قابل اعتناء سمجھتا ہے جو گھر میں گندگی اور غلاظت پھیلاتا ہے اور گھر کی چیزوں کو توڑ پھوڑ دیتا ہے؟

آخر کیا چیز ہے کہ ماں اپنے خون سے انسانیت کی کھیتی کو سینچتی ہے اور اپنے سینے کے نہروں سے اسے سیراب کرتی ہے؟ ظاہر ہے کہ انسان یہ ساری کلفتیں اور مصیبتیں جھیلنے کے لیے محض اس فطری محبت کی وجہ سے تیار ہوجاتا ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ نے والدین کو اس کی اولاد کے تئیں عطا کی ہے،اور اولاد سے فطری محبت اور قلبی تعلق ووابستگی اتنی مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے کہ نسلا بعد نسل منتقل ہوتی رہتی ہے، اور اسی شعلۂ محبت سے خاندان کے خاندان بنتے جاتے ہیں، تو بھلا بتلائیے کہ بچوں کے لیے قومی پرورش خانہ کی تجویزفطرت سے بغاوت نہیں ہے؟ روزانہ ہزاروں بچوں کو ان کے والدین سے الگ کرکے ان کے جذبۂ محبت کا خون کرنا نہیں ہے؟

انسان کے فطری کمالات کاخون

جب بچوں کی حفاظت ونگہداشت اور ان کی تعلیم وتربیت کے لیے قومی کارخانے تشکیل دئے جائیں گے تو ہزاروں لاکھوں بچے بیک وقت ایک ہی نقشے ایک ہی ساخت اور ایک ہی ڈھنگ پر تیار ہوکر نکلیں گے، جیسے لوہے کی ایک بڑی فیکٹری سے لوہے کے تمام پرزے یکساں ڈھلے ہوئے نکلتے ہیں، جس سے بچوں کا انفرادی تشخص اور انفرادی ملکہ بھی ابھر اور نکھر نہیں سکتا، انسان کے متعلق یہ لوگ کتنے بے شعور اور کم فہم واقع ہوئے ہیں کہ لوہے کے پرزوں کی طرح یکساں طور پر تمام انسانوں کو تیار کرنا چاہتے ہیں، انھیں معلوم ہی نہیں کہ بچوں کی شخصیت تیار کرنا در حقیقت ایک لطیف ترین آرٹ ہے، اور یہ آرٹ ایک چھوٹے سے نگار خانے میں ہی بہتر طور پر انجام پا سکتا ہے، جہاں ہر مصور کی توجہ ایک ہی تصویر پر مرکوز ہو؛ ورنہ ایک بڑی فیکٹری میںجہاں کرایہ کے مزدور ایک ہی طرز کی تصویر لاکھوں کی تعداد میں تیار کرتے ہوں تو ایسے یکساں اور مصنوعی افراد تیار ہوں گے جو کارخانۂ عالم کی تباہی وبربادی کا ہی باعث ہوں گے۔

فساد و بگاڑ کا سبب

بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت کے لیے قومی کارخانے میں ایسے کارندوں کا ہونا بھی ضروری ہے جن میں اخلاقی انضباط اور صحیح ڈسپلن پایا جاتا ہو، اپنی خواہشات اور جذبات پر قابو رکھتے ہوں، تاکہ وہ بچوں کی صحیح پرورش کرسکیں اور انھیں صحیح ڈسپلن اور اخلاقی انضباط کا حامل بنا سکیں، سوال یہ ہے کہ قومی کارخانے میں ایسے کارندے لائے کہاں سے جائیں گے، جب قومی کارخانے سے تمام بچے یکسانیت اور مصنوعی ہمواری لے کر پیدا ہوئے ہیں اور سوسائٹی میں ایسے افراد کی بہتات ہے جن کی جسمانی وذہنی نشوونما کرایہ کے مزدوروں کے ہاتھوں انجام پائی ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں پوری نسل اخلاقی لحاظ سے ناکارہ اور ذہنی وفکری لحاظ سے مفلوج تیار ہوگی، اور اس کی وجہ سے عالم میں جو فساد اور بگاڑ پیدا ہوگا اس کے تصور سے ہی ایک ہوشمند اور باشعور انسان کانپ اٹھتا ہے۔

عورت کی اہانت وتذلیل

قدرت نے صنف نازک کے کاندھے پر جو ذمہ داریاں ڈالی ہیں، مثلاً بچوں کی پرورش اور ان کی حفاظت ونگہداشت، امورخانہ داری کا انتظام، شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری ،اور شوہر کو جو ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں مثلا عورت کے لیے نان ونفقہ کا انتظام، صنفی تعلق قائم کرنے سے پہلے مہر کی ادائیگی کی ترغیب، عورت کی مرضی کے بغیرطلاق کے ذریعہ ازدواجی رشتہ ختم کرنے کا مرد کو اختیار، ان امور میں اگر کوئی حقیقت پسند انسان غور کرے تو معلوم ہوگا کہ قدرت نے مرد کو حاکم بنایا ہے اور عورت کو محکوم، اور یہ ظاہر ہے کہ محکوم اور رعایا پر جتنے حاکم اور بادشاہ ہوں گے محکوم اور رعایا کی اسی قدر تذلیل اور اہانت ہوگی، اسی لیے اسلام عورت کو ایک وقت میں ایک ہی خاوند سے ازدواجی رشتہ قائم کرنے کا پابند بناتا ہے، تاکہ وہ باعزت طور پر زندگی بسر کرسکے۔

نباہ ہونامشکل اوردشوارہے

نیز یہ مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ ایک حاکم تو مختلف مزاج کے حامل محکوموں کو تو نباہ سکتا ہے، لیکن ایک محکوم متعدد حاکموں کو نہیں نباہ سکتا، یہی وجہ ہے کہ ایسی تنظیم جہاں نوکر اور ملازمین پر کئی لوگ حکم چلاتے ہوں تو عموما نوکر اور ملازمین پریشان ہوکر اس تنظیم سے علیحدگی اختیار کرلیتے ہیں، عورت بھی چوں کہ محکوم ہے اس لیے متعدد شوہروں کے ساتھ اس کا نباہ بھی مشکل ہوگا۔

تعددخاوندشرم وحیاکے منافی

اللہ تبارک وتعالیٰ نے عورت کے اندر فطرۃ شرم وحیا کا وصف رکھا ہے، مرد کے بالمقابل اس کی طبیعت میں تمانع اور فرار پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ با حیا اور پاکدامن عورت اجنبی مرد کے سامنے آنے اور اس سے گفتگو کرنے سے جھجکتی ہے،کوئی مرد اس سے بات کرتا ہے تو فطری حیا کی وجہ سے اپنی آنکھیں نیچی کرلیتی ہے، یہ مادۂ حیا جو قدرت نے ہر عورت -جو مغربی تہذیب کے پھیلتے زہریلے اثرات سے محفوظ ہو اور عریانیت وفحاشیت کے سیلاب نے اس کے گھر پر دستک نہ دی ہو- کے اندر رکھا ہے، اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ عورت کے لیے ایک ہی خاوندزیادہ موزوں اور مناسب ہے۔

تعددخاوندشرح آبادی میں کمی کاباعث

نکاح کے جہاں دیگر مقاصد ہیں وہیں ایک اہم مقصد افزائش نسل بھی ہے، اور یہ اہم مقصد اس وقت بہتر انداز میں پورا ہوتا ہے جب کہ ایک مرد کی متعدد بیویاں ہوں؛ کیوں کہ اس صورت میں تمام بیویاں توالد وتناسل کا عمل بیک وقت انجام دے سکتی ہیں؛ لیکن اگر ایک عورت کے لیے متعدد خاوند ہوں تو ظاہر ہے کہ عورت ایک حمل میں ایک دو سے زیادہ بچے نہیں جن سکتی، جس سے افزائش نسل جیسا اہم مقصد فوت ہوگا، اور قدرتی طور پر انسان کی آبادی میں کمی ہوتی چلی جائے گی۔

تعددخاوندقدرتی نظام سے بغاوت

اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ مرداورعورت کی شرح پیدائش اگر چہ یکساں ہے ؛تاہم مرد وں کی اموات کی شرح عورتوں کی بہ نسبت زیادہ ہے ، مردوں کی موت کے اسباب مختلف ہوتے ہیں ، مثلا جب جنگ ہوتی ہے تو زیادہ تر صرف مرد ہی مارے جاتے ہیں ، چنانچہ پہلی عالمی جنگ (۱۹۱۴تا ۱۹۱۸)میںاسی لاکھ فوجی مارے گئے ،شہری لوگ جو اس جنگ میں ہلاک ہوئے وہ اس کے علاوہ ہیں ، دوسری عالمی جنگ (۱۹۳۹تا ۱۹۴۵)میں ساڑھے چھ کروڑ لوگ مارے گئے یا جسمانی طور پر ناکارہ ہوگئے، یہ سارے لوگ زیادہ تر مرد تھے ، عراق اورایران کی جنگ (۱۹۷۹تا ۱۹۸۸)میں ایران کی بیاسی ہزار عورتیں بیوہ ہوگئیں اورعراق میں ایسے عورتوں کی تعداد قریب ایک لاکھ تھی جن کے شوہر اس دس سالہ جنگ میں ہلاک ہوئے ،اسی طرح جدید صنعتی نظام کی وجہ سے حادثات روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں ، سڑک حادثے،ہوائی حادثے ،کارخانوں کے حادثے ،مشینی حادثے ، اس میں بھی مرنے والے عموما مرد ہی ہوتے ہیں ،اسی طرح اکثر ممالک میں دفاعی نظام مضبوط کرنے کے لئے آئے دن اسلحہ سازی کے تجربات ہورہے ہیں جس میں کئی لوگ جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں،ان ہلاک شدگان کی تعداد کبھی نہیں بتائی جاتی، تاہم یہ یقینی ہے کہ اس میں بھی زیادہ مرنے والے مرد ہی ہوتے ہیں، اسی طرح جرم کی پاداش میں روزانہ ہزاروں مرد پکڑے جاتے ہیں ،اورجیل کی سلاخوں کے پیچھے انہیں ڈال دیا جاتاہے ،اور عورت چوں کہ نفسیاتی لحاظ سے کمزور دل واقع ہوئی ہے ، اس لئے عورت مجرمانہ ذہنیت رکھنے کے باوجو د عام حالات میں وہ جرائم اورغیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوتی ہے۔ اس تفصیل سے واضح ہے کہ مرد وں اورعورتوں کی تعداد میں فرق اورناہمواری دنیا کا ایک مستقل مسئلہ ہے ، اوریہ فرق حالت جنگ میں بھی پایا جاتاہے اورعام حالا ت میں بھی ،یہ چیز اس بات کی طرف مشیر ہے کہ مرد کے حق میں تعدد ازواج فطرت کے منشأ کے عین مطابق ہے، جب کہ ایک عورت کے لئے متعدد شوہر فطرت سے بغاوت ہے اور فطرت سے بغاوت انسانیت کے لئے ہمیشہ تباہی وبربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہے۔

طبی ماہرین کی تحقیق

طبی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایڈز اور سرطان رحم کا بنیادی سبب جنسی آوارگی اور صنفی انتشار ہے، عورت کے رحم میں مختلف لوگوں کے مادہ منویہ کا جمع ہونا عورت کے اندر ایڈز اور سرطان رحم کاشدید خطرہ پیدا کرتا ہے،یہی و جہ ہے کہ اسلام نے مطلقہ عورت کو عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ شادی کرنے کا حکم دیا ہے، تاکہ رحم کی اچھی طرح صفائی ہوجائے، ظاہر ہے کہ جب ایک عورت متعدد خاوند سے ازدواجی تعلق قائم کرے گی توعورت میں اس طرح کی مہلک بیماری کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
٭٭٭