سعودی عرب میں الکحل اسٹور تک غیر مسلموں کی رسائی خاموشی سے بڑھادی گئی
سعودی عرب نے خاموشی سے اپنے واحد اسٹورتک رسائی بڑھادی ہے جو الکحل فروخت کرتا ہے۔ اس نے امیرغیرملکیوں کو اِس اسٹور سے شراب خریدنے کی اجازت دے دی ہے۔
سعودی عرب نے خاموشی سے اپنے واحد اسٹورتک رسائی بڑھادی ہے جو الکحل فروخت کرتا ہے۔ اس نے امیرغیرملکیوں کو اِس اسٹور سے شراب خریدنے کی اجازت دے دی ہے۔
کسی وقت قدامت پسند رہی مملکت میں یہ تازہ قدم آزاد خیالی کا نیا تجربہ ہے۔ اِس فیصلہ کے تعلق کوئی سرکاری اعلان نہیں کیا گیا لیکن بات باہر آگئی۔ سعودی دارالحکومت ریاض کے ڈپلومیٹک علاقہ میں گمنام اسٹور کے سامنے کاروں اور لوگوں کی طویل قطاریں دیکھی جاسکتی ہیں۔
یہ اسٹور جنوری 2024ئ میں غیر مسلم سفارتکاروں کیلئے کھولا گیا تھا۔ نئے قواعد کی رو سے غیر مسلم بیرونی شہری جن کے پاس پریمیم اقامہ ہے، شراب خریدسکتے ہیں۔ یہ اقامہ خاص ہنرمندوں، سرمایہ کاروں اور انٹرپرینرس کو ملتا ہے۔ سعودی عرب نے جو اسلام کا مرکز ہے، 1950ئ کے دہے میں الکحل پر امتناع عائد کردیا تھا۔
سعودی کرائون پرنس محمد بن سلمان اور ان کے والد شاہ سلمان نے مملکت میں ڈرامائی لبرلائزیشن کی پالیسی اپنا رکھی ہے، جس کا مقصد سیاحت اور بین الاقوامی تجارت کو بڑھاوادینا ہے تاکہ خام تیل کی آمدنی پر انحصار گھٹایا جائے۔ شرعی قانون پر چلنے والی مملکت نے مووی تھیٹرس (سنیماہال) کھول دئے۔
اس نے خواتین کو کار چلانے کی اجازت دے دی اور موسیقی کی بڑی بڑی محفلیں منعقد کیں لیکن سیاسی تقاریر اور اختلافِ رائے کو آج بھی جرم مانا جاتا ہے اور اس کے لئے سزائے موت تک دی جاسکتی ہے۔ الکحل عوام کیلئے ممنوعہ ہے۔ ریاض کا گمنام اسٹور ڈیوٹی فری شاپ جیسا لگتا ہے۔
اِس کا مالک کون ہے، یہ سرکاری سطح پر نہیں بتایا گیا۔ اس اسٹور میں کڑی سیکورٹی ہوتی ہے۔ ہر آنے والے کی اچھی طرح جانچ کی جاتی ہے۔ اندر فون اور کیمرے لانا منع ہے۔ اسٹور کا عملہ عینکوں کی تک جانچ کرتا ہے کہ کہیں یہ عینکیں کیمرے والی اسمارٹ گلاسس تو نہیں۔
امریکی نیوز ایجنسی اسوسی ایٹیڈ پریس (اے پی) نے اسٹور سے نکلنے والے کئی گاہکوں سے بات چیت کی۔ انہوں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی کیونکہ الکحل کو بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دام بڑھے ہوئے ہیں۔
سفارتکاروں کو خریداری پر ٹیکس چھوٹ ملتی ہے لیکن پریمیم اقامہ ہولڈرس کو نہیں ملتی۔ کسٹمرس نے بتایا کہ اسٹور میں نسبتاً اچھا اسٹاک ہے۔ بعض نے کہا کہ بیر اور وائن کا انتخاب محدود ہے۔ مملکت ِ سعودی عرب نے دنیا بھر سے ماہرین کو راغب کرنے کے لئے پریمیم ریسیڈنسی پرمٹ متعارف کرائی ہے۔
اس کیلئے سعودی اسپانسر(کفیل) کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے تحت کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں جیسے جائیداد خریدنے، تجارت شروع کرنے اور فیملی اسپانسر کرنے کا حق ملتا ہے۔ اس کے لئے بہت زیادہ آمدنی یا بھاری سرمایہ کاری ضروری ہے۔
سعودی شہری اور دیگر ممالک کے لوگ جو شراب پینا چاہتے ہیں ، پڑوسی جزیرہ بحرین چلے جاتے ہیں جہاں الکحل مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو قانوناً دستیاب ہے۔ ویک اینڈ پر اور چھوٹیوں میں سعودی عرب سے اور خلیج کے دیگر ممالک سے بحرین جانے والوں کی تعداد کافی بڑھ جاتی ہے۔ زیادہ مہنگا آپشن متحدہ عرب عمارات کا شہر دبئی ہے۔
مملکت میں الکحل اسمگل بھی ہوتی ہے لیکن وہ کافی مہنگی ہوتی ہے۔ سعودی عرب کے شاہ عبدالعزیز مرحوم نے 1951ئ کے ایک واقعہ کے بعد مملکت میں شراب پر امتناع عائد کردیا تھا۔ ان کا ایک بیٹا نشہ کا عادی ہوگیا تھا اور اس نے ایک چھوٹی بندوق سے برطانیہ کے نائب قونصلر سرل عثمان کو جدہ میں گولی مارکر ہلاک کردیا تھا۔