حیدرآباد

حضرت شیخ الاسلامؒ کے عرس کے موقع پر جامعہ نظامیہ میں سمینار

حیدرآباد علمی معارف کا گہوارہ اور علم و فن کا مرکز ہے۔ یہاں کی تحریکات، ادارے اور تنظیمیں پوری دنیا میں اپنی شناخت رکھتی ہیں۔

حیدرآباد: حیدرآباد علمی معارف کا گہوارہ اور علم و فن کا مرکز ہے۔ یہاں کی تحریکات، ادارے اور تنظیمیں پوری دنیا میں اپنی شناخت رکھتی ہیں۔

مجلس احیاء المعارف النعمانیہ ان ہی میں سے ایک ہے جس نے ایک صدی قبل مجلس احیاء المعارف النعمانیہ اور فقہ حنفی کی امہات الکتب کی صیانت کے لیے جو کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں۔ اسے عالم اسلام نے سراہا ہے۔

ان خیالات کا اظہار مجلس احیاء المعارف النعمانیہ کے عنوان سے جامعہ نظامیہ میں منعقدہ سمینار میں کیا گیا جو شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی علیہ رحمہ کے عرس شریف کے ضمن میں منعقد کیا گیا تھا۔

مولانا مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس سال بزبان عربی احیاء المعارف النعمانیہ کی تحقیقی و دینی خدمات پر علمی سمینار منعقد کیا گیا۔ یہ مجلس 97 سال قبل قائم کی گئی۔ جس کی بنیاد علماء جامعہ نظامیہ نے رکھی۔

ساری دنیا میں تو اس کی علمی تحقیقات کی دھوم ہے لیکن اہل دکن کو اس سے واقفیت کی ضرورت ہے۔ اقطاع عالم مصرو حلب وغیرہ میں اس کی شاخیں تھیں وہاں کے علماء اس کے وکیل و معاون رہے مزید کہا کہ مولانا ابوالوفاء افغانی نے باوجود دنیوی ذرائع نہ ہونے کے اس دور میں کثیر مصارف کے ذریعہ قیمتی سرمایہ جمع کیا اور قوم کو اسلامی علوم اور فقہ حنفی سے روشناس کروایا۔حضرت مفکر اسلام نے طلبہ علم کو توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ وہ تعلیم و تعلم کے ساتھ تحقیق کے میدان میں آگے آئیں۔ اور قوم کو فائدہ پہنچائیں۔

ڈاکٹر سعید بن مخاشن کامل جامعہ و اسسٹنٹ پروفیسر مانو نے کہا کہ مجلس احیاء المعارف النعمانیہ عالم اسلام کا ایک ممتاز تحقیقی ادارہ ہے جس نے دنیا بھر کے علمی مراکز اور مکتبات کو تلاش کر کے نادر اور نایاب مخطوطات حاصل کیے اور ان پر بڑی جانفشانی کے ساتھ تحقیقات اور تعلیقات کے ساتھ مزین کر کے ساری دنیا کے سامنے پیش کردیا۔

جن میں بعض وہ کتابیں بھی شامل ہیں جن کے صرف نام سے دنیا واقف تھی لیکن مجلس ہی کی تحقیقات کے سبب وہ کتابیں پہلی مرتبہ منصہ شہود پر آئیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایشیا، یوروپ اور آفریقہ کے محققین اس ادارے سے وابستہ ہو کر علمی کام سر انجام دینے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ ا مفتی حافظ سید واحد علی نائب شیخ الفقہ و نائب مفتی جامعہ نظامیہ نے اپنے مقالے میں کہا کہ حضرت ابوالوفاء افغانی رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب الرد علی سیرالأوزاعی کی تحقیق کی اور یہ انوکھی تحقیق اپنی مثال آپ ہے۔

یہ کتاب ممالک اسلامیہ کے داخلی خارجی امور پر قدیم ترین کتابوں میں شامل ہے۔ اس کتاب کا صرف ایک نسخہ تھا، یہ کتاب تحقیق کے ساتھ ایک جلد میں ایک سو پینتیس صفحات پر مشتمل ہے۔ جس کی طبع اول 1357 ھ مصر سے ہوئی۔ اس میں محقق افغانی نے 54 رجال کے تراجم لکھے اور تقریبا 90 کتابوں کے حوالہ جات دئیے۔ احادیث شریفہ پر تحقیقی گفتگو کرتے ہوئے اہم حدیثی فقہی نکات و فوائد رقم فرمائے۔

ڈاکٹر مولانا حامد بن محمد قریشی استاذ جامعہ نظامیہ نے اپنے مقالے میں کہا کہ مناقب امام اعظم اور صاحبین پر لکھی ہوئی کتاب جو شافعی عالم دین امام ذھبی نے تالیف کی ہے اور اُس پر جامعہ کے عظیم سپوت نے جامع تحقیق کی اور انہوں نے حضرت ابوالوفاء الافغانیؒ کی سیرت اور اُن کے کارناموں پر روشنی ڈالی۔ مولانا حافظ محمد فیروز خان استاذ جامعہ نظامیہ نے کتاب الاصل کے حوالے سے حضرت ابوالوفاء افغانی کی تحقیق کے اسلوب پر اپنا مقالہ پیش کیا۔

تحقیق کے سلسلہ میں حضرت ابوالوفاء افغانی نے جن امور کو ترجیح دی ہے اور آپ کے علاوہ جن محققین نے اپنی کوششوں کو صرف کیا۔ مقالہ نگار نے اس کا تقابلی مطالعہ پیش کیا۔ مولانا سید جمیل الدین استاذ جامعہ نظامیہ نے کتاب الحجہ علی اہل المدینہ پر اپنی تحقیق پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب تقریبا بیس سال کی محنت شاقہ اور تحقیق کے بعد احیاء المعارف النعمانیہ سے شائع کی گئی۔ فقہ مقارن کی ابتدائی کتابوں میں شمار کی جاتی ہے۔

جن تالیفات کی وجہ امام محمد کو ابوالقانون الدولی کہا جاتا ہے یہ کتاب ان میں سے ایک ہے۔ مولانا محمد وکیع الدین نقشبندی کامل جامعہ نظامیہ نے حضرت ابوالوفا افغانی کی ’اصول سرخسی‘ کی تحقیق کے حوالہ سے اپنا مقالہ پیش کیا کہ آپ نے اس کے متن کی توثیق فرمائی اور پیچیدہ مباحث کی شرح و توضیح فرمائی۔ اور کہا کہ علماء عرب نے نہ صرف آپ کی تحقیق سے استفادہ کیا بلکہ اسی کے مطابق متن کتاب پر اعتماد کیا۔

عالم عرب میں اس کتاب پر مختلف جہات سے تحقیق کی گئی اور Ph.D کے مقالے پیش کئے گئے۔ مولانا حافظ اسمعیل ہاشمی صاحب نائب مہتمم کتب خانہ جامعہ نظامیہ نے کلمات تشکر پیش کیا۔مولانا محمد خالد علی نائب شیخ الادب جامعہ نظامیہ نے نظامت کے فرائض انجام دئیے۔ شہ نشین پر شیوخ و نائبین و معتمد جامعہ اور اساتذہ جامعہ موجود تھے۔ طلبہ قدیم و فارغین اور علم دوست کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

a3w
a3w