حیدرآباد

ایس آئی آر "بیک ڈور این آر سی”، مذہب کے نام پر مخصوص طبقہ کو ووٹر لسٹ سے باہر کرنے کی کوشش: اسدالدین اویسی

سبھا میں انتخابی اصلاحات سے متعلق بحث کے دوران آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین (AIMIM) کے صدر اور حیدرآباد کے رکنِ پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے اسپیشل انٹینسیو ریویژن (SIR) پر شدید اعتراضات اٹھاتے ہوئے اسے ’’بیک ڈور این آر سی‘‘ قرار دیا۔

لوک سبھا میں انتخابی اصلاحات سے متعلق بحث کے دوران آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین (AIMIM) کے صدر اور حیدرآباد کے رکنِ پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے اسپیشل انٹینسیو ریویژن (SIR) پر شدید اعتراضات اٹھاتے ہوئے اسے ’’بیک ڈور این آر سی‘‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل مذہب کی بنیاد پر ووٹروں کو فہرست سے خارج کرنے کی ایک پوشیدہ کوشش ہے۔

متعلقہ خبریں
اردو جرنلسٹس فیڈریشن کا ایوارڈ فنکشن، علیم الدین کو فوٹو گرافی میں نمایاں خدمات پر اعزاز
سی اے اے، این آر سی کے خلاف شہر حیدرآباد کا ملین مارچ احتجاج تاریخی : محمد مشتاق ملک
اویسی کا دوٹوک بیان: پاکستان دہشت گردی کی آڑ میں انسانیت کا دشمن
مسلمان اگر عزت کی زندگی چاہتے ہو تو پی ڈی ایم اتحاد کا ساتھ دیں: اویسی
وزیراعظم صاحب آپ کے بھی چھ بھائی ہیں ۔ اویسی کی مودی پر تنقید

اویسی نے ایوان میں واضح طور پر کہا کہ الیکشن کمیشن شہریت کے معاملات دیکھنے کا مجاز ادارہ نہیں۔ شہریت کا فیصلہ کرنا مکمل طور پر مرکزی حکومت اور وزارتِ داخلہ کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن کے اقدامات ایک ایسے قانون کی خلاف ورزی ہیں جسے خود پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔

اپنی تقریر میں اویسی نے کہا:
میں SIR کی مخالفت کرتا ہوں۔ یہ چھپا ہوا این آر سی ہے۔ اس کا مقصد مذہب کی بنیاد پر ووٹروں کو نکالنا ہے۔

اویسی نے 1950 کے ریپریزنٹیشن آف پیپل ایکٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک بار ووٹر لسٹ میں نام شامل ہونے کے بعد اسے شہریت کا ثبوت سمجھا جاتا ہے، اور کسی شہری کا نام ہٹانے سے پہلے باقاعدہ انکوائری، نوٹس اور قانونی کارروائی ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ SIR کے تحت الیکشن کمیشن شہریوں پر ہی اپنی شہریت ثابت کرنے کا بوجھ ڈال رہا ہے، جو قانون کے ساتھ ساتھ انتخابی رولز کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔

اویسی نے مزید کہا کہ 2025 کی ووٹر لسٹ میں جن لوگوں کے نام پہلے سے موجود ہیں، انہیں دوبارہ دستاویزات مانگ کر شہریت ثابت کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق، “یہ قدم صرف شکوک و شبہات پیدا کرنے اور لوگوں میں خوف بڑھانے کے مترادف ہے۔”

خطاب کے دوران اویسی نے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حقیقی جمہوریت وہی ہے جس میں سیاسی طاقت کمزور، پسماندہ اور محروم طبقات تک بھی پہنچے۔ انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ موجودہ پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی نہایت کم ہے۔
اویسی نے بتایا کہ “پارلیمنٹ میں صرف چار فیصد مسلمان ہیں، جبکہ حکمراں جماعت میں ایک بھی مسلم رکنِ پارلیمنٹ نہیں۔ ہم صرف ووٹ ڈالنے والے بن کر رہ گئے ہیں، منتخب نہیں ہو پا رہے۔

انہوں نے جرمنی کے طرز پر مکسڈ ممبر پارلیمانی نظام اپنانے کی تجویز بھی پیش کی، جس میں ہر ووٹر کے پاس دو ووٹ ہوتے ہیں—ایک امیدوار کے لیے اور ایک سیاسی پارٹی کے لیے، تاکہ نمائندگی زیادہ منصفانہ ہو سکے۔

اویسی نے یہ بھی کہا کہ کشمیر اور آسام کی طرح یکطرفہ ڈی لِمیٹیشن نہیں ہونی چاہیے۔ حد بندی کا عمل اتفاقِ رائے اور انصاف کے ساتھ انجام دیا جانا چاہیے۔
ساتھ ہی انہوں نے مطالبہ کیا کہ حقِ رائے دہی کو بنیادی حق قرار دیا جائے تاکہ ہر شہری کا ووٹ آئینی حفاظت کے تحت محفوظ ہو۔