(یوم سرسید 17 اکتوبر کے موقع پر خاص)
از ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی (علیگ)
اٹھارویں صدی کے اواخر سے لے کر انیسویں صدی کے اختتام کا دور ہندوستان کی تاریخ کا بدترین اور تاریک ترین دورکہا جاسکتا ہے کیونکہ اس دور میں سارا ہندوستانی سماج غضب کی مایوسی کا شکار تھا۔ عجب افراتفری کا عالم تھا۔ آزادی کے متوالوں کے حوصلے پست ہوچکے تھے۔
برطانوی سامراج کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جارہی تھی۔ عوام پر ظلم وزیادتی کے واقعات عام ہوگئے تھے۔ سارا معاشرہ بکھرتا دکھلائی پڑتا تھا۔ غلامی، افلاس، ناکامی، ناامیدی اور نا مرادی عوام کا مقدر بن گئی تھی۔ سماج کا ایک بڑا طبقہ علم سے بے بہرہ تھا اور پرانی قدروں اورمردہ رسوم میں اپنے کو کھوتا جارہا تھا۔ توہم پرستی اپنے عروج پر تھی۔
خوش قسمتی سے اس نازک دور میں دو بہت اہم اورہمہ گیر شخصیتیں ہندوستانی معاشرہ میں ابھریں جنہوں نے سوتے ہوئے اور غافل ہندوؤں اور مسلمانوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اس میں ایک ہستی تھی راجہ رام موہن رائے کی اور دوسری سر سید احمد خاں کی ذات گرامی۔
راجہ رام موہن رائے نے 1772ء عیسوی میں بنگال کے ایک برہمن گھرانے میں جنم لیا۔ انہوں نے کم عمری میں یہ محسوس کیا کہ ہندوستان کا مسئلہ تعلیم کی کمی اور سائنسی رویہ کے فقدان کا ہے۔ انہیں یقین کامل ہوگیا کہ اگر عوام اپنے فرسودہ رسم ورواج اور پرانی تعلیم کو چھوڑ کر نئی سائنسی تعلیم کی جانب متوجہ ہوں تو وہ واقعی ایک آزاد قوم کی حیثیت سے زندہ رہنے کا حق مانگ سکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ہندوؤں میں انگریزی اور سائنسی تعلیم حاصل کرنے کی وکالت کی۔
شروع میں ان کی بے پناہ مخالفت کی گئی اور الزام عائد کیا گیا کہ وہ ہندوستانی قدروں کو برباد کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ مخالفتیں زیادہ دن تک ٹک نہ سکیں اور وہ اپنے کچھ ساتھیوں کی مدد سے 1816ء عیسوی میں کلکتہ میں ایک ہندو کالج قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے جس میں انگریزی اور سائنس کی تعلیم دی جانے لگی۔ عام ہندو نئی تعلیم کی جانب متوجہ ہونے لگے۔
راجہ رام موہن رائے کا مشن کامیابی کے دور میں آیا ہی تھا کہ سرسید کی ہمہ جہت شخصیت بھی ہندوستان کے مسلم معاشرہ میں ابھر کر سامنے آئی۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے مسلمانوں کی تباہی، پستی اور بربادی دیکھی تھی۔ جناب موہن رائے کی طرح ان کو بھی احساس ہوا کہ مسلمانوں کو قعر مذلت سے نکالنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ان کو نئے سائنسی رجحانات سے باخبر کیا جائے اور انگریزی تعلیم کی طرف راغب کیا جائے۔
اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے جو کچھ کیا وہ آج ہندوستان کی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔ سر سید کے سائنسی انداز فکر اور ہندوستانی مسلمانوں کے اعمال وافکار پر ان کے اثرات کا ایک جائزہ لینا آج وقت کی اہم ضرورت ہے۔
سرسید احمد خاں نے یکم اکتوبر 1817ء کو دہلی کے ایک معزز گھرانے میں جنم لیا۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت عبرت ناک تھی۔ وہ ایک طرف مایوسی کاشکار تھے تو دوسری جانب نئے علوم سے قطعاً ناواقف۔۔ سرسید نے جب ہوش سنبھالا توایک طرف مسلمانوں کی معاشی زبوں حالی دیکھی تو دوسری طرف ان کا نئے علوم کے لئے منفی اور غیر منطقی رویہ پایا۔ انہیں یہ یقین ہوچلا کہ مسلمانوں کو ہندوستانی سماج میں ایک باوقار اور باعزت مقام دلانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ان کو نئی سائنسی دنیا سے روشناس کیا جائے۔ نئے علوم سے واقف کرایا جائے۔
کتنے عبرت کا مقام تھا کہ جس قوم کے لئے اس کے پیغمبرؐ کی یہ تعلیم اورنصیحت موجود تھی کہ علم حاصل کرو خواہ اس کے حصول کے لئے چین جانا پڑے وہ قوم چین تو کیا خود اپنے ملک میں موجود نئی سائنسی علم سے منھ چراتی تھی۔ بہرحال سرسید نے مسلمانوں میں سائنسی مزاج پیدا کرنے اور سائنسی علم کوعام کرنے کا بیڑا اٹھا ہی لیا اور عین حدیث رسولؐ کی پیروی کرتے ہوئے علم حاصل کرنے اور نئے علمی کارناموں سے واقفیت حاصل کرنے کی غرض سے انگلینڈ کا سفر اختیار کیا اور وہ بھی اپنا گھر بار رہن رکھ کر۔ کئی ماہ تک وہاں درس گاہوں اور لائبریریوں کی تفصیلات جمع کیں۔
آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کا دورہ کیا۔ صنعت وحرفت کے میدان میں ہوئی ترقیوں کا جائزہ لیا اور نئی سائنسی تعلیم کے مختلف پہلوؤں پر ماہرین سے گفت وشنید کی۔ اس دوران انگلینڈ میں لوگوں کا رہن سہن اور سائنسی تعلیم کی لیاقت دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔ وہیں سے لکھے گئے اپنے ایک خط میں تحریر کیا کہ کاش میری قوم کے بچے ایسے ہی علم حاصل کرتے اور ملک کو وہی سب کچھ دیتے جویہاں لوگوں کو میسر ہے۔ ایک دوسرے خط میں لکھا کہ ’’جو قومیں حصول علم میں پیچھے رہ جاتی ہیں ذلت خواری ان کا مقدر بن جاتی ہے‘‘۔
انگلینڈ سے واپس آکر سر سید نے اپنے خیالا ت کے اظہار کے لئے رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ جار ی کیا اور تحقیقی اور تعلیمی کاموں میں مصروف ہوگئے۔ مختلف اسکیمیں بنائیں جن کا مقصد نئے سائنسی علوم کو نوجوانوں تک پہنچانا تھا۔ یورپین علوم کی اہمیت جتانے کے لئے ضروری تھا کہ کچھ اہم علمی اور تاریخی کتابوں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرکے انہیں شائع کیا جائے۔
اس مقصد کی خاطر سرسید نے ایک مضمون بعنوان ’’التماس بخدمت ساکنان ہندوستان در باب ترقی تعلیم اہل ہند‘‘ شائع کیا جس میں یہ تجویز رکھی کہ سائنسی علوم عام کرنے کی غرض سے ایک تنظیم قائم کی جائے جس کا مقصد اردو میں سائنسی لٹریچر شائع کرنا ہو۔ چنانچہ 1863ء میں سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے ایک تنظیم کا قیام عمل میں آیا۔ سرسید اس کے اعزازی سکریٹری مقرر ہوئے۔
شمالی ہندوستان میں یہ سوسائٹی اپنے قسم کی پہلی جماعت تھی جس نے پورے ملک میں سائنس کی اہمیت کا احساس لوگوں کودلایا۔ اس سوسائٹی کے زیراہتمام چند ہی سالوں میں کئی مفید کتابیں اردو میں ترجمہ ہوکر شائع ہوئیں جس سے ملت مغربی علوم سے روشناس ہوئی اور ان علوم کی بابت عام ذہنوں میں جو غلط تاثرات تھے وہ بڑی حد تک دور ہوگئے۔
سوسائٹی کے تحت ایک ہفتہ وار گزٹ 1866 سے شائع ہونا شروع ہوا۔ اس گزٹ میں انگریزی اور اردو دونوں ہی زبانوں میں کالم لکھے جاتے۔ ان کالموں میں عوام کونقصان دہ تعصبات سے دور رہنے کی اپیلیں شائع ہوتیں اور مسلمانوں کو نئی دنیا کے چیلنج کا سامنا کرنے کی تلقین دی جاتی۔
سائنٹفک سوسائٹی کے قیام کے فوراً بعد ہی سرسید کی مخالفت کی ایک منظم مہم سارے ملک میں شروع کر دی گئی۔ سرسید ان مخالفتوں سے چنداں مایوس نہ ہوئے بلکہ اپنے عزائم میں کچھ زیادہ ہی قوت محسوس کرنے لگے اور ایک کالج کے قیام کی اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔
سرسید کا مسلمانوں کو سائنس سے روشناس کرنے کا جذبہ اور ان کو باوقار مقام دلانے کا عزم ایک جنونی کیفیت اختیار کر چکا تھا۔ بالاخر انہوں نے 1875 میں ایک مدرسہ کی بنیاد علی گڑھ میں ڈال ہی دی۔ مدرسہ کی شکل میں نئی تعلیم کی یہ کرن بہت سے اندھیروں پر چھا گئی اور آخر کار یہ مدرسہ 1877ء میں کالج بنا جس کا اصل مقصد مسلمانوں میں سائنس کی تعلیم کو فروغ دینا تھا لیکن جس کے دروازے سارے ہندوستانیوں کے لئے کھلے تھے۔
سرسید کے نظریہ سے ہندوستان جیسی دلہن کا حسن اسی وقت قائم رہ سکتا تھا جب کہ اس کی دونوں آنکھیں یعنی ہندو اور مسلمان، نور سے بھری ہوں، علی گڑھ کا یہ کالج مولانا آزاد کی سرپرستی میں ہندستانی مسلمانوں کی کاوشوں سے اور مولانا آزاد کی اپیل سے 1920 میں یونیورستٹی بن گیا اور ساری دنیا میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے مشہور ہوا۔ آج ہندوستانی معاشرہ میں اس کی اہمیت سب کو تسلیم ہے۔
سرسید احمد خاں نے بہتان تراشیوں اورملامتوں سے دل برداشتہ ہوکر اپنے مشن کوترک کردیا ہوتا اورعلی گڑھ کالج کا قیام عمل میں نہ آیا ہوتا تو آج اس ملک کے مسلمان کتنے خسارہ میں رہتے۔ ہم سائنسی علم سے کتنا دور ہوتے اور ’’علم الانسان مالم یعلم‘‘ کے مفہوم سے کتنا ناواقف ہوتے۔
پیغام سرسید کے چند اہم نکات
1۔ علی گڑھ کے طلبا ملک کے طول و عرض کا دورہ کریں ۔ سائنسی فکر، اخلاقیات اور رواداری کا پیغام عام لوگوں تک پہنچائیں۔
2۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کا حصول ہی مسلمانوں کی تمام مشکلات کا واحد حل ہے۔
3۔ پرانی اور بیکار رسوم انسانی ترقیات میں حائل ہوتی ہیں۔
4۔ اوھام پرستی ایمان کا حصہ نہیں ہے۔
5۔ اسلام سائنس اور سائنسی تحقیقات کے خلاف نہیں ہے۔
6۔ فرسودہ عقائد اور مغربی تعلیم سے انحراف مسلمانوں کی پسماندگی کا بنیادی سبب ہے۔
7۔ قوم کی ترقی کے لئے سب سے پہلی شرط آپس کا اتفاق اور اتحاد ہے۔
8۔ علی گڑھ کالج کا مرکزی مقصد مسلمانوں میں جدید تعلیم کو فروغ دینا ہے لیکن یہ ادارہ ہندوؤں کے لئے بھی ہے۔ ان دونوں کو تعلیم کی ضرورت ہے۔
9۔ ہندوستان کے نوجوانوں کو انگلینڈ کے نوجوانوں کے مانند ملک کی صنعتی ترقی کے فروغ میں اہم رول ادا کرنا چاہیے۔ (سر سید کا پیغام انگلینڈ میں اپنے قیام کے دوران)۔
10۔ تمام انسان ہمارے بھائی اور بہن ہیں۔ ان کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا تمام مسلمانوں کے لئے واجب ہے۔
11۔ ہندو اور مسلمان ایک قوم (نیشن) ہیں۔
سرسید ۔۔ دانشوروں کی نظر میں
1۔ سرسید ایک زبردست مصلح تھے۔ وہ مذہبی عقائد کو جدید سائنسی فکر سے ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے ۔۔ منطقی طور پر، بنیادی عقائد پر کسی طرح کے غلط اثر سے گریز کرتے ہوئے۔ وہ نئی تعلیم کے فروغ کے لئے پریشان تھے۔ وہ فرقہ وارانہ علیحدگی پسند بالکل نہ تھے۔ انہوں نے زور دیا کہ مذہبی اختلافات کو سیاسی اور قومی مفادات سے دور رکھا جائے۔ (پنڈت جواہر لال نہرو ۔۔ ڈسکوری آف انڈیا)
2۔ اپنے دور کے مطالبات کو پورا کرنے کے لئے سر سید کا مشن انتہائی قابل قدر تھا۔ 1857 کا دور سیاہ اندھیرے کا دور تھا۔ بے پناہ مایوس کن۔ راجہ رام موھن رائے اور سر سید جیسے قوم پرست مستقبل کو محسوس کر سکتے تھے۔ وہ مانتے تھے کہ ہمارا ماضی شاندار تھا۔ اس میں بڑی خوبیاں تھیں لیکن مستقبل سے نمٹنے کے لئے معاشرہ کو الگ سے تیار کرنا تھا۔ سرسید کو میں اپنا خراج تحسین پیش کرتا ہوں ان کے نقطہ نظر اور جرات کے لئے کہ باوجود شدید مشکلات کے انہوں نے ایک عظیم کام انجام دیا۔ (جناب اندر کمار گجرال ۔۔ سابق وزیراعظم۔ (سرسید سائنٹفک سوسائٹی۔ لکھنؤ کے لئے پیغام 2003)
3۔ سرسید چاہتے تھے کہ کالج پرانی اور نئی قدروں کے درمیان ایک پل کے طور پر کام کرے۔ مشرق اور مغرب کے درمیان بھی۔ انہوں نے جدید اور سائنسی تعلیم کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کالج کے طالب علموں کو سائنسی فکر کی تبلیغ کے لئے نصیحت کی۔ تحمل اور اخلاقیات کے لئے بھی۔ (سومناتھ چٹرجی۔ سابق اسپیکر لوک سبھا)