انسان میں بدجانور کی کڈنی کا کامیاب ٹرانسپلانٹ
اس تحقیق کا مقصد دوسرے جانداروں کے اعضاء کو انسانوں میں منتقل کرنے کے دوران پیش آنے والی بڑی رکاوٹ — یعنی انسانی مدافعتی نظام — کو قابو میں لانا تھا۔
واشنگٹن: امریکہ میں طب کی دنیا میں ایک بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے جہاں ماہرین نے پہلی بار جینیاتی طور پر تبدیل شدہ پِگ کڈنی انسان میں کامیابی کے ساتھ ٹرانسپلانٹ کر دی۔ یہ تجربہ نیویارک یونیورسٹی کے لینگون ہیلتھ سنٹر کے ڈاکٹروں نے انجام دیا، جو شدید انسانی اعضاء کی کمی کے مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
اس تحقیق کا مقصد دوسرے جانداروں کے اعضاء کو انسانوں میں منتقل کرنے کے دوران پیش آنے والی بڑی رکاوٹ — یعنی انسانی مدافعتی نظام — کو قابو میں لانا تھا۔
عام طور پر انسانی جسم وائرس، نقصان دہ مادّوں اور بیرونی اعضاء کے درمیان فرق نہیں کر پاتا اور ہر غیر مانوس چیز پر اینٹی باڈیز کے ذریعے حملہ کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں اعضاء کی پیوندکاری ناکام ہو جاتی ہے۔
57 سالہ دماغی طور پر مردہ مریض پر کیے گئے اس تجربے میں پِگ کڈنی کو جینیاتی طور پر اس طرح تبدیل کیا گیا کہ وہ انسانی جسم کے مدافعتی ردِعمل کی مزاحمت کر سکے۔ مریض کو دو ماہ تک لائف سپورٹ پر رکھا گیا جبکہ اس دوران بار بار بایوپسی کے ذریعے یہ جانچا گیا کہ جسم نے اس نئے عضو پر کس طرح ردِعمل ظاہر کیا۔
محققین نے مجموعی طور پر 5,100 پِگ اور انسانی جینز کا باہمی موازنہ کیا اور ہر اُس خلیے کی نشاندہی کی جو مدافعتی ردعمل میں شامل ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی طریقہ آئندہ 20 مزید مریضوں پر آزمایا جائے گا، جو زینو ٹرانسپلانٹیشن کے شعبے میں ایک تاریخی سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ کامیابی مستقبل میں اعضاء کی قلت کے بحران کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی اور لاکھوں مریضوں کے لیے نئی امید بن سکتی ہے۔