لو جہاد قانون کی آئینی حیثیت پر سپریم کورٹ کا مرکز کو نوٹس جاری
صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند کی درخواست پر چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس نرسہما کے روبرو سماعت کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول اوردیگر پیش ہوئے۔
نئی دہلی: لو جہاد قانون کی آئینی حیثیت اور مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر جاری تبدیلی مذہب کے خلاف داخل پٹیشن پر آج سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے مرکزی حکومت کو تازہ نوٹس جاری کیا اور حلف نامہ داخل کرنے کے لیئے تین ہفتوں کی مہلت دی۔
صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند کی عرضی پر چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس نرسہما کے روبرو سماعت کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول اوردیگر پیش ہوئے۔
دیگر فریقوں کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل، دشینت دوے، سی یو سنگھ، اروند داتار، اندرا جئے سنگھ، ورندہ گروور ودیگر بھی پیش ہوئے۔مرکزی حکومت کی جانب سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا پیش ہوئے۔ آج عدالت نے صرف جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی) کی جانب سے داخل پٹیشن پر نوٹس جاری کیا اور سماعت کے لیئے قبول کرلیا۔
جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن کا نمبر سول رٹ پٹیشن 40/2023 ہے۔ عدالت نے دیگر تین عرضداشتوں کو بھی سماعت کے لیئے قبول کرلیا جنہوں نے مختلف ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے لو جہاد قوانین کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔ وقت کی تنگی کی وجہ سے عدالت نے آج صرف ان عرضداشتوں پر نوٹس جاری کیا جن پر ابتک نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا جبکہ ٹرانسفر پٹیشن اور مداخلت کار کی دیگر عرضداشتوں پر سماعت بعد میں کیئے جانے کا حکم جاری کیا۔
جمعیۃ علماء ہند سمیت مختلف مسلم فریق نے ہندوستان کی مختلف ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے تبدیلی مذہب (لو جہاد) قوانین کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے جبکہ اشوینی کمار اپادھیائے نامی ایڈوکیٹ نے مفاد عامہ کی عرضداشت داخل کرکے عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ مسلمانوں اور کرسچنس کی جانب سے مبینہ جبراً کرائے جارہے تبدیلی مذہب پر کارروائی کرے۔
حالانکہ عدالت نے آج کوئی عبوری فیصلہ نہیں صادر کیا لیکن عدالت نے گذشتہ سماعت پر اپنے روزنامہ میں نو ٹ کیا تھاکہ لو جہاد قانون کی آئینی حیثیت چیلنج کرنے والی عرضداشتیں الہ آباد ہائی کورٹ میں 5، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ 7، گجرات ہائی کورٹ 2، جھارکھنڈ ہائی کورٹ 2، ہماچل پردیش ہائی کور ٹ 4، کرناٹک ہائی کورٹ میں 1/ پٹیشن زیر سماعت ہے۔
واضح رہے کہ ہندوستان کی پانچ مختلف ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے تبدیلی مذہب (لو جہاد) قوانین کی آئینی حیثیت کو جمعیۃ علماء ہندنے گذشتہ ہفتہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے، جمعیۃ علماء ہند نے آئین ہند کے آرٹیکل 32/ کے تحت مفاد عامہ کی پٹیشن داخل کی ہے۔
جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کی جانب سے تازہ پٹیشن داخل کی گئی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ قوانین کو بنانے کا مقصد درحقیقت ہندو اور مسلمان کے درمیان ہونے والی بین المذہب شادیوں کو روکنا ہے جو کہ آئین ہند میں دی گئی۔
مذہبی آزادی کے خلاف ہے اور اس سے شخصی آزادی بھی مجروح ہوتی ہے،جس کا التزام آئین میں موجود ہے۔عرضداشت میں مزید کہا گیاہے کہ کہ ان قوانین کے ذریعہ مذہبی اور ذاتی آزادی پر قدغن لگانے اور برادران وطن میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے لہذا سپریم کورٹ کو مداخلت کرکے ریاستوں کو ایسے قوانین بنانے سے روکنا چاہئے نیز جن ریاستوں نے ایسے قوانین بنائے ہیں انہیں ختم کردیا جاناچاہئے۔
عرضداشت میں مزید کہاگیا کہ لو جہاد قانون بنانے کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ بین المذاہب شادی میں ایک مخصوص فرقہ کو پریشان کیاجائے۔عرضداشت میں مزید تحریر کیا گیا ہے کہ لو جہاد قانون کے ذریعہ ایک بڑی تعداد میں مسلمانوں کو گرفتار کیاجاچکا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے لہذا مسلمانوں کے خلاف بنائے گئے اس غیر آئینی قانو ن کو ختم کرنا چاہئے نیز سپریم کورٹ کو تمام ریاستوں کو حکم دینا چاہئے کہ وہ ایسے قانون بنانے سے گریز کریں۔
جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن میں اتر پردیش پروہیبشن آف ین لاء فل کنورژن آف ریلجن ایکٹ 2021، دی اترا کھنڈ فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 2018، ہماچل پردیش فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 2019، مدھیہ پردیش فریڈم آف ریلیجن ایکٹ2021 اور گجرات فریڈم آف ریلیجن ایکٹ 2021قوانین کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیاہے۔