پاکستانی صوفی رہنما کے جسد خاکی کو بنگلہ دیش سے اترپردیش لانے کی درخواست سپریم کورٹ میں مسترد
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ متوفی پاکستانی شہری تھے۔ لہٰذا کوئی کیسے توقع کر سکتا ہے کہ ہندوستانی حکومت اُن کے جسد خاکی کو یہاں لائے گی۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے پاکستانی شہری اور صوفی رہنما حضرت شاہ محمد عبدالمقتدر شاہ مسعود احمد کی جسد خاکی کو بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں واقع ایک قبر سے نکال کر اتر پردیش کی ایک درگاہ تک لیجانے کا مطالبہ کرنے والی درخواست کو جمعہ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا مسترد کر دیا کہ ایسا کوئی قانونی بندوبست نہیں ہے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ متوفی پاکستانی شہری تھے۔ لہٰذا کوئی کیسے توقع کر سکتا ہے کہ ہندوستانی حکومت اُن کے جسد خاکی کو یہاں لائے گی۔ چیف جسٹس نے بنچ کی جانب سے کہا کہ ایسا کوئی قانونی حق نہیں ہے اس لئے درخواست خارج کردی گئی ۔”
بنچ نے کہا ’’حضرت شاہ ایک پاکستانی شہری تھے اور ان کے کوئی آئینی حقوق نہیں تھے… اس لیے ان کی قبر کشائی سے متعلق عملی مشکلات ہیں۔‘‘ اصولی طور پر اس عدالت کے لیے یہ درست نہیں ہوگا کہ وہ کسی غیر ملکی شہری کی نعش کو ہندوستان واپس لانے کا حکم دے۔
اپنا فیصلہ سناتے ہوئے بنچ نے کہا کہ درخواست گزار نے آرٹیکل 32 کے تحت دائرہ اختیار کی خلاف ورزی کی ۔ جبکہ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ حضرت کی پیدائش اتر پردیش کے پریاگ راج میں ہوئی تھی۔ بعد میں وہ پاکستان چلے گئے اور 1992 میں انہیں پاکستانی شہریت دی گئی۔ صوفی رہنما کا انتقال 2022 میں ڈھاکہ میں ہوا اور انہیں وہیں سپرد خاک کیا گیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ صوفی رہنما کو 2008 میں پریاگ راج میں درگاہ حضرت ملا سید محمد شاہ کے سجادہ نشین کے طور پر چنا گیا تھا۔ صوفی رہنما نے 2021 میں مقدس مقام پر دفن ہونے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے اپنی وصیت عام کی تھی ۔ ان کی وفات کے بعد انہیں ڈھاکہ (2022 میں) میں دفن کیا گیا۔
درخواست گزار کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل نے کہا "آج پاکستان میں ان کا کوئی خاندان نہیں ہے، جب کہ یہاں (اتر پردیش میں) انہیں درگاہ کا سجادہ نشیں بنایا گیا تھا۔