سیاستمضامین

انڈیا ا تحاد : کشتی ڈگمگارہی ہے

سید سرفراز احمد (بھینسہ)

متحد ہونا متحد رہنا اور متحدہ کام کرنا اگر اس فارمولے پر کام کیا جائے تو اتحاد کے باقی رہنے کی گنجائش بھی باقی رہتی ہے کسی بھی اتحاد کے معاملہ میں کوئی ذاتی مفاد شامل نہ ہو دولت بٹورنے کی نیت نہ ہو عہدے کی خواہش نہ ہو تب ہی اتحاد دیر پا یا مستقل قائم رہ سکتا ہے ورنہ یک جٹ ہوتے بھی نہیں کہ بکھرنے لگتے ہیں کے مترادف کیفیت برپا ہوجاتی ہے ویسے ایک کہاوت ہے اکیلا چنا پہاڑ نہیں پھوڑ سکتا واقعتاً ہم روز مرہ کی زندگی میں بھی دیکھتے ہیں خواہ وہ نجی،خاندانی،تجارتی ہوزندگی کے ہر شعبہ میں اتحاد ناگزیر ہے ورنہ کسی بھی مشکل کام کو انجام دینا بہت مشکل ہوجاتا ہے اس سے آگے بڑھ کر دیکھاجائے تو سیاسی معاملات انتہائی اہم ہوتے ہیں جس کیلئے اتحاد سب سے اہمیت کا حامل ہے لیکن سیاست ہمیشہ دوکوڑی کے روپ میں دیکھی جاتی ہے کب کون کونسا روپ اختیار کرتا ہے جسکا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا چونکہ سیاست میں دوستی اور دشمنی شانہ بہ شانہ چلتے ہیں اگر ہم بھارت کی موجودہ سیاسی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہیکہ ایک سیاسی گوشہ اس ملک کے آئین اور جمہوریت کے بالکل متضاد چل رہا ہے اور دوسرا سیاسی گوشہ جمہوریت اور آئین کو حقیقی روح میں واپس لانے کی کوشش کررہا ہے جس کی کوشش کیلئےقومی و علاقائی سیکولر پارٹیوں نے ایک متحدہ پلیٹ فارم بھی سجایا ہے لیکن پلیٹ فارم سجانا جتنا آسان ہے اسکو چلانا اتنا ہی مشکل ہے متحدہ پلیٹ فارم کو چلانے کیلئے حوصلے قربانیاں آزمائشیں پیش آتی ہیں اگر وہ اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو تب ہی مستقبل کا لائحہ عمل تیار کرسکتے ہیں ورنہ کوئی معمولی امید بھی نہیں کی جاسکتی۔
ہمارا ملک پچھلے دس سالوں سے بڑے ہی نازک دور سے گذر رہا ہے اس ملک کی سیاست نے یہاں کی عوام کو تقسیم کرکے رکھ دیا ہےجس ملک کو دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہونے کا اعزاز حاصل ہے وہ ملک آج جمہوریت کا صرف نام لیوا بن چکا ہے جس ملک کو مذہب سے اوپر جمہوریت کو فوقیت دی جاتی تھی وہ ملک کی سیاست کا ایک حصہ آج جمہوریت اور آئین پر مذہب کو فوقیت دے رہی ہے اسی لیئے اس ملک کی عوام جمہوریت اور ہندوتوا کی کشمکش میں الجھ کر رہ گئی ہے اچھی بات یہ ہیکہ آج بھی اس ملک کی عوامی اکثریت ہو یا سیاسی اکثریت جمہوریت کے گن گاتی ہے اور جمہوریت کا دم بھرنے کی کوشش کررہی ہے اسی کوشش کیلئے ملک کی قومی و علاقائی پارٹیوں نے مذہب سے اوپر اٹھ کر سیکولرزم کو پروان چڑھانے آئین کا تحفظ کرنےکیلئے ایک متحدہ پلیٹ فارم انڈیا اتحاد کو سجایا ہے یہ بڑا ہی خوش آئند اقدام ہے لیکن جس اتحاد نے ایک بڑے کام کیلئے اپنے آپ کو تیار کیا ہے وہ اتحاد ابھی اتنی بڑی قربانیوں کو جھیلنے کیلئے تیار نظر نہیں آرہا ہے یا پھر وہ ان قربانیوں کے قابل ہی نہیں ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہوسکتا ہیکہ وہ اس ملک کے عوام کی بھلائی کو ٹھکرا کراپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں تو بھلا ایسے اتحاد سے آگے بھی کوئی کیسے اچھی امید کرسکتا ہے؟کسی بھی سیاسی اتحاد میں اختلافات کا پایا جانا ایک عام سی بات ہے لیکن ان اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اتحاد پر ڈٹ کر رہنا یہ استقامت کی اور بڑے پن کی نشانی ہوتی ہے لیکن شائد اس قابل بھی کوئی نہیں ہے اورانڈیا اتحاد میں ابھی تک یہ سب نظر بھی نہیں آرہا ہے۔
اسمیں کوئی شک نہیں ہیکہ انڈیا اتحاد کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس ہے جسکو انڈیا اتحاد میں مرکزی کردار کی ذمہ داری سونپی گئی ہے یعنی کانگریس کے قومی صدر ملیکارجن کھرگے کو اس انڈیا اتحاد کی بڑی ذمہ داری دی گئی لیکن جس طریقے سے انڈیا اتحاد میں شامل پارٹیوں کے اختلافات جو منظر عام پر آرہے ہیں وہ انڈیا اتحاد کے کھوکھلے پن کی کھلی دلیل ہے حالانکہ اسی انڈیا اتحاد سے حکمران جماعت کے پیروں تلے زمین کھسک رہی تھی لیکن اب شائد حکمرانوں کیلئے یہ خوشخبری ہوسکتی ہے ابھی مغربی بنگال کی ترنمول کانگریس کی سربراہ و وزیر اعلی ممتا بنرجی کا جس طریقے سے رد عمل سامنے آیا ہے وہ اپنے آپ میں ایک حماقت کی نشانی ہے ممتا بنرجی نے کھلے الفاظ میں یہ کہا کہ ہمارا انڈیا اتحاد سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ہم لوک سبھا انتخابات میں بنگال کی 42 نشستوں پر تنہا الیکشن لڑیں گے اور لوک سبھا انتخابات کے بعد ہی فیصلہ کریں گے کہ آیا انھیں کس کا ساتھ دینا ہے دیدی کا فرمان جاری ہوتے ہی دوسری طرف پنجاب کے عام آدمی پارٹی کے وزیر اعلی بھگونت مان نے بھی پنجاب کی تمام 13 نشستوں پر اکیلے الیکشن لڑنے کا فیصلہ صادر کیا ہے اور تیسری طرف بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار اور تیجسوی میں بھی اختلافات منظر پر آنے لگے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہیکہ بہار میں بھی سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے آر جے ڈی اور جے ڈی یو کے اتحاد سے بہار میں حکومت تشکیل دینے والے آج ایک حمام کے ننگے بن چکے ہیں دیدی کا ماننا ہیکہ انھوں نے کانگریس کو بہت سی تجاویز دی تھی لیکن اسے مسترد کردیا گیا اور ہم کانگریس کو بنگال میں دو نشستیں دینے پر آمادہ ہوئے تھے لیکن کانگریس کو مزید نشستیں درکار تھی جسکے سبب ترنمول کانگریس پارٹی نے تنہا الیکشن لڑنے کا فیصلہ لیا ہے عام آدمی پارٹی کے قومی سربراہ اروند کیجریوال منیش سسودیا اور سنجے سنگھ کی گرفتاری کے بعد فی الحال ایسے چپی سادھے ہوئے ہیں جیسے کہ انھیں کسی سانپ نے سونگھ لیا ہے پنجاب کے بھگونت مان کا فیصلہ اس بات کی طرف واضح اشارہ دے رہا ہیکہ عام آدمی پارٹی حکمران جماعت کے خوف سے انڈیا اتحاد سے دوری بنانا چارہی ہو اور کہیں نہ کہیں کیجریوال کو بھی یہ خوف کھائے جارہا ہوگا کہ حکمران جماعت انھیں بھی سلاخوں کے پیچھے نہ بھیج دیں بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار جو سیاست میں ایک اچھا خاصہ تجربہ رکھتے ہیں اور سیاسی چانکیہ مانے جاتے ہیں جنکا ماضی میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد بھی رہ چکا ہے لیکن تیجسوی کے ساتھ انکے اختلافات ایک بہانہ ہوسکتے ہیں کیونکہ شائد وہ انڈیا اتحاد کے سربراہ کے طور پر خود کو دیکھنا چاہتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوسکا نتیش کمار کی ہمیشہ سے یہ سیاسی شعبدہ بازی رہی کہ وہ ہر حال میں اپنی گدی کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں شائد جسکے بغیر انکا جینا محال ہے اب کیا پتہ لوک سبھا انتخابات تک نتیش کدھر ڈوبیں گے کدھر نکلیں گے جسکا کوئی بھروسہ نہیں۔
اہم سوال یہ ہیکہ کیا انڈیا اتحاد لوک سبھا انتخابات تک اپنی ثابت قدمی دکھاپائے گا؟اگر دکھاپائے گا توکیا اکثریت اگر چہ حاصل ہوجائے گی تو حکومت چلاسکے گا؟پھر تو اور مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے قبل اسکے کہ انڈیا اتحاد کی علاقائی پارٹیوں کو اپنا اپنا بھی جائزہ لیتے ہوئے اتحاد کے ساتھ چلنا چاہیئے کیونکہ اہم بات یہ ہیکہ عوام کی رائےریاستی سطح پر الگ اور ملکی سطح پر الگ ہوتی ہے یہ بات علاقائی جماعتوں کو اچھا ذہن نشین کرلینا چاہیئے مطلب یہ ہیکہ ملک کی عوام میں لوک سبھا انتخابات کیلئے جو رائے کا رجحان پیدا ہورہا ہے وہ علاقائی پارٹیوں کی بہ نسبت دو دھڑوں میں یعنی ملک کی دو قومی پارٹیوں بی جے پی اور کانگریس میں تقسیم ہوتا دکھائی دے رہا ہے ایسا بھی نہیں ہیکہ علاقائی پارٹیوں کو عوام مکمل فراموش کردے گی وہ بھی اپنے حصہ میں کچھ نشستیں حاصل کرلیں گے لیکن اکثریتی رائے کے تناظر میں لوک سبھا الیکشن بی جے پی بمقابلہ کانگریس ہونے کی توقع ہے تو کہنا یہ ہیکہ علاقائی پارٹیاں کیوں کانگریس کو بڑا بناکر اسکے ساتھ نہیں چلنا چاہتی ہے؟حالانکہ کانگریس ہی بی جے پی سے مقابلہ کی اصل دعویدار ہے اور قومی پارٹی بھی بلکہ کھرگے راہل گاندھی اور پرینکا بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے شب وروز جدوجہد کررہے ہیں آئین کو بچانے جمہوریت کا تحفظ کرنے مذہب کی آگ کو پھیلنے سے روکنے کیلئے محبت کی دوکان کھول رہے ہیں تو کیا علاقائی جماعتیں چھوٹی چھوٹی قربانیاں نہیں دے سکتی؟حالانکہ کیجریوال اور ممتا دیدی سینہ ٹھوک کر بی جے پی پر ملک میں نفرت پھیلانے کا الزام لگاتے ہیں تو محبت کی دوکان لگانے میں کیوں پس وپیش کررہے ہیں؟ سیکولر علاقائی جماعتوں کویہ سیاسی منطق سے اور اپنی سیاسی قوت پر جو فخر ہے اس سے باہر نکلنا ہوگا تب ہی آپ بی جے پی کو لوک سبھا انتخابات میں بازی مارنے سے روک سکتے ہیں۔
ابھی تو انڈیا اتحاد کو آزمائشوں اور قربانیوں کے سمندر سے گذرنا ہے جو آگ کے دریا کے مترادف ہےجو ایک طویل مسافت ہے لیکن ابھی سے یہ کشتی ڈگمگاتی نظر آرہی ہے کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ ایک ایک سیاسی مسافر کشتی سے جاتا رہے اور صرف ملاح ہی باقی رہ جائے انڈیا اتحاد میں شامل جماعتوں کو بار بار سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیئے قربانیوں میں ایکدوسرے پر سبقت لے جانا چاہیئے تب ہی وہ بی جے پی سے مقابلہ کرسکتے ہیں کیونکہ سفر کا ابھی تو آغاز ہوا ہے جو ایک طویل سفر ہے جس میں پر خار راستے آئیں گے قدم قدم پر مشکلیں آئیں گی لیکن ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے صبر وتحمل سے کام کرنے والے ہی منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں اگر انڈیا اتحاد بکھرتا رہا تو ملک کی عوام میں ایک منفی پیغام بھی جائے گا جسکا منفی اثر بھی رائے دہی پر پڑ سکتا ہے اور بی جے پی کا کام آسان ہوسکتا ہے ایک بات انتہائی اہم ہیکہ ملک کی عوام لوک سبھا انتخابات میں علاقائی جماعتوں کی کٹھ پتلی نہ بنیں بلکہ قومی سیکولر پارٹی کو اولین ترجیح میں شامل کریں تاکہ ملک میں جو نفرت اور مذہب کی سیاست کا پرچار ہورہا ہے وہ محبت اخوت اور امن میں بدل سکے انڈیا اتحاد میں شامل تمام پارٹیوں کا منشاء بھی یہی ہونا چاہیئے اگر انڈیا اتحاد تاش کے پتوں کی طرح ٹوٹ کر بکھرتا رہا تو اسکا خمیازہ خود انھیں اپنی ریاست کے آئندہ الیکشن میں بھگتنا بھی پڑسکتا ہے۔