بین الاقوامی
ٹرینڈنگ

طیب اردغان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر اُٹھایا

طیب اردغان نے کہا کہ "ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بات چیت اور تعاون کے ذریعہ کشمیر میں منصفانہ اور دیرپا امن کے قیام نے جنوبی ایشیا میں امن، استحکام اور خوشحالی کی راہ ہموار کی ہے۔"

واشنگٹن: ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے یہاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں کشمیر کا مسئلہ اٹھایا۔ ایردوان نے جنرل ڈیبیٹ میں عالمی رہنماؤں سے اپنے خطاب  کیا۔

متعلقہ خبریں
ترکیہ میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کا اعلان
اسرائیلی حملوں سے تباہ غزہ کی بحالی کیلئے 40 ارب ڈالر درکار ہوں گے: اقوام متحدہ
رمضان میں وادی کشمیر میں مہنگائی کا جن قابوسے باہر
اسرائیل جان بوجھ کر فلسطینیوں کو بھوکا مارنا چاہتا ہے: اقوام متحدہ
حلقہ کاروان میں نلوں سے آلودہ پانی کی شکایت: کوثر محی الدین

اُنہوں نے کہا کہ "ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بات چیت اور تعاون کے ذریعہ کشمیر میں منصفانہ اور دیرپا امن کے قیام نے جنوبی ایشیا میں امن، استحکام اور خوشحالی کی راہ ہموار کی ہے۔” انہوں نے کہا کہ ترکی اس سمت میں اٹھائے گئے اقدامات کی حمایت جاری رکھے گا۔

اردغان کا یہ تبصرہ چند ہفتے قبل اس وقت آیا جب انہوں نے نئی دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی۔ اس دوران دونوں رہنماؤں نے تجارت اور انفراسٹرکچر کے شعبے میں دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال کیا۔

اردغان نے کہا کہ یہ فخر کی بات ہے کہ ہندوستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اور 15 غیر مستقل ارکان بنانے کے حق میں ہیں۔ ترک رہنما نے حالیہ برسوں میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں عالمی رہنماؤں سے اپنے خطاب میں کئی بار کشمیر کا مسئلہ اٹھایا ہے۔

انہوں نے منگل کو یو این جی اے کے اجلاس میں کہا، "75 سال قبل خودمختاری اور آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی ہندوستان اور پاکستان نے آپس میں امن اور ہم آہنگی برقرار نہیں رکھی ہے۔

یہ کافی بدقسمتی کی بات ہے۔ ہم امید کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ کشمیر میں منصفانہ اور دیرپا امن اور خوشحالی قائم ہو۔” اردغان نے 2020 میں عام بحث میں پہلے سے ریکارڈ شدہ ویڈیو بیان میں جموں و کشمیر کا بھی ذکر کیا تھا۔

اس وقت ہندوستان نے اسے "مکمل طور پر ناقابل قبول” قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ترکی کو دوسرے ممالک کی خودمختاری کا احترام کرنا چاہئے اور اپنی پالیسیوں کے بارے میں مزید گہرائی سے سوچنا چاہئے۔

a3w
a3w