حیدرآبادقانونی مشاورتی کالم

شہر میں جائیدادوں کے دستاویزات کی جانچ کرنے کی مہم شہریوں کے لئے بہت بڑی ہراسانی کا سبب بن سکتی ہے

شہر میں جائیدادوں کے تعمیری اجازت نامہ۔ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر دستاویزات کے جانچ کرنے کی مہم شہریوں کے لئے بہت بڑی ہراسانی کا سبب بن سکتی ہے۔شہر میں جائیدادوں کے مالکین میں زبردست بے چینی پائی جارہی ہے

حکومت کو پراپرٹی ٹیکس وصول کرنے کا قانونی حق ہے۔ ساتھ ہی بلا اجازت تعمیر کردہ مکانات یا تعمیری منظوری کی خلاف ورزی میں تعمیر کی گئی عمارتوں کو باقاعدہ بنانے کی درخواستیں وصول کرنے اور ان کی فیس وصول کرنے کا بھی اختیار ہے۔ حکومت اعلان کرسکتی ہے کہ متعینہ مدت کے اندر جائیدادوں کے ٹیکس کا اسسٹمنٹ کرواکر ٹیکس کی رقم ادا کریں اور ساتھ ہی تمام بے قاعدہ تعمیرات کو باقاعدہ بنانے کی درخواستیں پیش کریں اور ساتھ ہی مطلوبہ رقومات ادا کریں۔

متعلقہ خبریں
سری چیتنیہ کالجس پر طلبہ کو ہراساں کرنے کا الزام۔ یوتھ کانگریس کا احتجاج
جی ایچ ایم سی نے جائیداد ٹیکس وصول میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا
نازیبا سلوک پر اسسٹنٹ ٹیچر معطل
مودی، گورنر کے ذریعہ لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کئے جانے پر خاموش کیوں ہے؟: ممتا بنرجی
بیٹے کی ہراسانی اورحملہ۔ضعیف شخص کا دو مرتبہ اقدام خودکشی

لیکن حالیہ اعلان کہ شہر کی تمام تعمیرات کا فضائی سروے کرواکر اور ہر گھر میں جاکر تمام دستاویزات کی تنقیح اور شہریوں کو حکم کہ تمام دستاویزات تیار رکھیں‘ شہریوں کے لئے بہت بڑی تشویش کا باعث بن رہا ہے اور لوگوں کو پریشانیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
غیر مجاز تعمیرات یا تعمیری اجازت نامہ کی خلاف ورزی میں تعمیر کی گئی عمارات کی تمام تر ذمہ داری ان کرپٹ ‘ راشی اور بدعنوان ٹاؤن پلاننگ عہدیداروں پر عائد کی جاسکتی ہے کہ ان کی اجازت کے بغیر ایسی تعمیرات نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہیں۔

یہ بدعنوان عہدیدار غیر مجاز تعمیرات کی خود اجازت دیتے ہیں اور صرف اتنا کہتے ہیں کہ دیکھئے کوئی شکایت آنے نہ پائے۔ عام طور پر G+1 کی تعمیری اجازت دی جاتی ہے اور پھر اوپری منزلوں کا ‘فی سلیب کے حساب سے لاکھوں روپیہ وصول کرلیتے ہیں۔ ہماری اطلاعات کے مطابق صرف پانچ فیصد عمارتیں ایسی ہیں جن کا Occupancy Certificate دیا گیا ہے مابقی 95 فیصد نو تعمیر شدہ عمارتوں ‘ کامپلکس وغیرہ میں کسی کے پاس بھی اس طرز کا کوئی سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔

جیسا کہ اعلان کیا گیا ہے‘اگر جائیدادوں کے دستاویزات کی تنقیح ہو تو95فیصد ایسی عمارتیں ملیں گی جو قانون اور تعمیری اجازت کی خلاف ورزی میں تعمیر ہوئی ہیں یا پھر ہزاروں عمارتیں ایسی ہیں جن کی کوئی اجازت ہی حاصل نہیں کی گئی ہے۔

گو کہ یہ عوامی نمائندوں کا کام ہے کہ حکومت سے عوامی تشویش اور ان کی مشکلات کے بارے میں نمائندگی کریں اور کوئی مناسب یا متبادل حل تلاش کرنے کی کوشش کریں لیکن ایسا کچھ ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

عوام میں ایک اور بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر تمام جائیدادوں کے دستاویزات کی تنقیح ہو کئی باتیں سامنے آسکتی ہیں کہ کس کے پاس کتنی جائیدادیں ہیں‘ کونسی جائیداد ان کی اپنی ہے یا انہوں نے کسی اور کے نام پر خریدی ہے ۔ایک اور اندیشہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ اگر تمام دستاویزات کی نقولات عہدیداروں کو دے دی جائیں تو نئے لینڈ ٹائٹلنگ ایکٹ(قانون) پر عمل درآمد کے راستے کھل سکتے ہیں۔

لہٰذا ہماری حکومت سے خواہش ہے کہ وہ اس اسکیم پر نظر ثانی کرے تاکہ عوام میں پھیلی ہوئی بے چینی میں کمی آئے۔

شہروں میں ہزاروں ایسے مکانات اور فلیٹس ہیں جو کرایہ پر دیئے گئے ہیں اور ان میں کرایہ دار حضرات مقیم ہیں۔ یہی حال ان ہزاروں دوکانوں اور تجارتی اداروں کا ہے جن کے مالکین کہیں اور یا غیر ممالک میں رہتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کرایہ دار کے پاس کرایہ نامہ کے سوا کوئی دستاویز نہیں رہتا اور اس صورت میں حکومت کی وضع کی گئی اسکیم پر عمل آوری نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن بھی ہے اور کسی بھی زاویہ سے یہ اسکیم قابل عمل نظر نہیں آتی۔ کرایہ دار کے پاس نہ تو جائیداد کے دستاویز رہتے ہیں اور نہ پراپرٹی ٹیکس رسائد اور نہ ہی تعمیری اجازت نامہ جات۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس اسکیم کے شکار وہ غریب افراد ہوں گے جنہوں نے پنی زندگی کے سارے اثاثہ جات فروخت کرکے زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا خریدا اور اس پر ایک دو کمروں والا مکان تعمیر رہائش کے غرض سے تعمیر کیا۔ اب یہ تلوار ان غریب افراد کے سرپر گرے گی ۔ حکومت کو برسراقتدار لانے والے غریب غرباء ہی اس مصیبت کے شکار ہوں گے۔

حکومت کو کسی بھی اقدام سے پہلے بہت سوچ بچار سے کام لینا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ ایسی اسکیم کیا قابل عمل (Feasible) ہوگی یا نہیں۔

ہماری ناقص رائے میں یہ اقدام بغیر کسی سنجیدہ سوچ کے کیا گیا جو اس قدر بے چینی اور اضطراب کا باعث بن گیا ہے۔
شہریانِ حیدرآباد کسی بھی ایسی مشکل گھڑی میں ہم سے ٹیلی فونی ربط قائم کرسکتے ہیں تاکہ صحیح رائے دی جاسکے۔
HELP LINE : 040-23535273 – 9908850090

a3w
a3w