بھارت

مودی سے سوال کرنے والی خاتون صحافی سبرینا صدیقی کو شدید ہراسانی کا سامنا، وائٹ ہاؤز کو آنا پڑا میدان میں

واضح رہے کہ امریکہ میں صدر جوبائیڈن کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران وال اسٹریٹ جرنل کی صحافی سبرینا صدیقی نے نریندر مودی سے ہندوستان میں مسلمانوں اور جمہوریت سے متعلق سوال پوچھا تھا۔

نئی دہلی: وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ امریکہ کے موقع پر ہندوستان میں مسلمانوں اور جمہوریت سے متعلق سوال پوچھنے والی مسلمان خاتون صحافی سبرینا صدیقی کو دائیں بازو کے انتہا پسند مودی بھکتوں اور آر ایس ایس کے تربیت یافتہ ٹرولس کی کی جانب سے عالمی سطح پر ہراسانی کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔

متعلقہ خبریں
مابعدالیکشن تشدد، مسلم بی جے پی ورکر ہلاک
ہندوستان ایک ملک ایک سول کوڈ کی طرف بڑھ رہا ہے: نریندر مودی (ویڈیو)
کملاہیرس اور ٹرمپ میں کانٹے کی ٹکر متوقع
دہشت گردی پر دُہرے معیار کی کوئی گنجائش نہیں، برکس چوٹی کانفرنس سے مودی کا خطاب
وزیر اعظم کی تقریر پر سیتا اکا کا شدید ردعمل

ساری دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم آر ایس ایس ورکرس جن میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹرس، انجینئرس، صحافی، دانشور اور دیگر لوگ شامل ہیں، سبرینا صدیقی کو سوشیل میڈیا پر اس شدت کے ساتھ ہراساں کرنے لگے کہ خود وائٹ ہاؤز کو سبرینا صدیقی کے دفاع میں آگے آنا پڑا۔

اس کے علاوہ سبرینا کو یہ بتانے کے لئے کہ وہ کون ہے، اپنی پرانی تصاویر شیئر کرنی پڑیں جن میں وہ ٹیم انڈیا کی ٹی شرٹ پہنے اپنے والد کے ساتھ ٹی وی پر ایک کرکٹ میچ دیکھ رہی ہیں۔

واضح رہے کہ امریکہ میں صدر جوبائیڈن کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران وال اسٹریٹ جرنل کی صحافی سبرینا صدیقی نے نریندر مودی سے ہندوستان میں مسلمانوں اور جمہوریت سے متعلق سوال پوچھا تھا۔

انہوں نے وزیراعظم سے پوچھا تھا کہ کیا آپ اور آپ کی حکومت اپنے ملک میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کو بہتر بنانے اور اظہار خیال کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے کچھ اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟

جس کے جواب میں نریندر مودی نے ہندی میں کہا کہ ہندوستان کی جمہوری اقدار میں ذات پات، رنگ و نسل، عمر اور جغرافیائی محل وقوع کی بنیاد پر بالکل کسی قسم کا کوئی امتیاز اور تفریق نہیں ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس سوال کے پوچھے جانے کے بعد سبرینا صدیقی کو مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر آن لائن ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے نتیجہ میں سبرینا صدیقی کا دفاع کرنے کے لئے خوو وائٹ ہاؤز کو میدان میں آنا پڑا۔  

سبرینا صدیقی کو ہندوتوا حامی سوشل میڈیا صارفین بالخصوص مودی کے بھکتوں اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی جانب سے ٹوئٹر پر ٹرولنگ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ سبرینا صدیقی پر ان کے مسلم پس منظر اور ان کے والدین میں سے ایک کا تعلق پاکستان سے ہونے پر انہیں شدت کے ساتھ ہراساں کیا جارہا ہے اور عالمی سطح پر ہراسانی کا کام کررہے اس انتہائی تربیت یافتہ ٹولے کی قیادت بی جے پی آئی ٹی سیل کا سربراہ امیت مالویہ کررہا ہے۔

امیت مالویہ اسی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے بی جے پی آر ایس ایس کے انتہا پسند ایجنڈے کو آگے بڑھانے، سوال پوچھنے والوں کو ہراساں کرنے، مسلم جہد کاروں و صحافیوں کو جھوٹے ویڈیوز اور ٹویٹس کے ذریعہ انہیں قانون کے جال میں پھانسنے اور ہندتوا انتہا پسندوں کے ظلم و جبر کی اپنے ٹویٹس کے ذریعہ مدافعت کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔

یہ امیت مالویہ وہی ہے جس کی وجہ سے عمر خالد جیسے نوجوان جیلوں میں ہنوز بند ہیں۔ زیر نظر کارٹون اس سلسلہ میں آپ کی رہنمائی کرتا ہے۔

اسی دوران وائٹ ہاؤس نے وزیراعظم نریندر مودی سے سوال کرنے والی خاتون رپورٹر سبرینا صدیقی کو آن لائن ہراساں کئے جانے کی سخت مذمت کی ہے۔ وائٹ ہاؤز نے وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹر سبرینا صدیقی کو ہراساں کرنے والوں کے خلاف سخت لب و لہجہ اختیار کیا ہے۔

پیر کے روز وائٹ ہاؤس کی پریس بریفنگ میں امریکی قومی سلامتی کونسل کے اسٹریٹجک کمیونیکیشن کے سربراہ جان کربی نے کہا کہ وائٹ ہاؤس کو سبرینا صدیقی کو ہراسانی کا اچھی طرح علم ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے اور ہم کسی بھی صورت میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ کربی نے مزید کہا کہ یہ جمہوریت کے ان اصولوں کے خلاف ہے جو گزشتہ ہفتے مودی کے دورہ میں دکھائے گئے تھے۔

محترمہ سبرینا صدیقی کو جوبائیڈن نے 22 جون کو ایک پریس بات چیت میں سوالات پوچھنے کے لئے بلایا تھا۔ انہوں نے نریندر مودی سے پوچھا تھا کہ وہ ہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق، مسلمانوں کے حقوق اور آزادی اظہار رائے کو برقرار رکھنے کے لیے کیا اقدامات کرنے کے لئے تیار ہیں؟ مودی نے اپنے ردعمل میں ہندوستان میں جمہوری اقدار کا دفاع کیا۔

وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کرائن جین پیئر نے 26 جون کو جان کربی کے ریمارکس کے فوراً بعد ان کے پیغام کا اعادہ کیا اور کہا کہ ہم آزادی صحافت کے لئے پرعزم ہیں، اسی لیے ہم نے گزشتہ ہفتے پریس کانفرنس کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہم یقینی طور پر کسی بھی صحافی کو ڈرانے یا ہراساں کرنے کی کوششوں کی مذمت کرتے ہیں جبکہ وہ صرف اپنا کام کرنے کی کوشش کر رہا یا کررہی ہے۔