حج 2024مذہب

زیارت ِ روضہ رسول ﷺ محشر میں شفاعت کی ضامن

رسول کریم ﷺ اپنی امت سے حد درجہ الفت ومحبت کرتے ہیں یہ محبت والفت آپ کی ظاہری حیات طیبہ تک محدود نہیں ہے، بلکہ قیامت تک آنے والی ساری امت کیلئے ہے جس کا تذکرہ رب کریم نے نہایت عمدہ پیرائے میں کیا

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی مجددی قادری
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)

رسول کریم ﷺ اپنی امت سے حد درجہ الفت ومحبت کرتے ہیں یہ محبت والفت آپ کی ظاہری حیات طیبہ تک محدود نہیں ہے، بلکہ قیامت تک آنے والی ساری امت کیلئے ہے جس کا تذکرہ رب کریم نے نہایت عمدہ پیرائے میں کیا ، ارشاد باری ہے : لَقَدْ جَاء کُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیْزٌ ۔۔ الخ (سورہ توبہ)

’بے شک تمہیں میں سے تمہارے پاس ایک برگزیدہ رسول تشریف لائے تمہارا مشقت میں پڑھنا ان پر گراں گزرتا ہے، تم پر بہت بھلائی کے خواہشمند رہتے ہیں مومنوں پر بڑی مہربانی فرمانے والے بہت رحم فرمانے والے ہیں‘ اس آیت کریمہ سے واضح ہے کہ آپ کی مہربانی وعنایت قیامت تک آنے والی ساری اُمت محمدیہ کے ساتھ ہوتی رہیگی۔

اپنی ساری ظاہری حیات مبارکہ میں حکمِ ہجرت سے اپنی امت کو آغوش رحمت میں رکھا اور انکی تربیت فرمائی بعد وفات اپنی خصوصی نعمتوں رحمتوں سے مالا مال کرنے کی خاطر حجاج کرام کومدینہ شریف آنے کا حکم دیا۔ قالﷺ من زار قبري وجبت لہ شفاعتي ’جس نے میری قبر شریف کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی ‘۔

رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا نوازنے کا محبت بھرا انداز کتنا پیارا ونرالہ ہے ،اپنی امت سے خطاب فرمارہے ہیں تم میری زیارت کیلئے آئو میں محشر کے دن تمہاری خصوصی سفارش کروں گا یہ انداز محبت ہے۔ رسول کریم نے وعدہ کیا کہ میں تمہاری ضروری سفارش کروں گا، یہ عام آدمی کا وعدہ نہیں ہے یہ وہ ذات گرامی ہیں جو اپنی امت کووعدہ پورا کرنے کی تلقین فرمائی وہی وعدہ کررہے ہیں ہم تمہاری شفاعت کرینگے پھر آگاہ کرتے ہوئے فرمایا اے حج کرنے والو ! حج کرکے اُدھر سے (مکہ مکرمہ سے) ہی نہ چلے جانا ،تمہارا اسطرح جانا ہمیں تکلیف پہنچاتا ہے یہ مناسب عمل نہیں ہے چنانچہ فرمان نبوی ﷺ ہے:

من حج البیت ولم یزرني فقد جفاني ’جس نے خانہ کعبہ کی زیارت کی اور میری زیارت نہیں کی تو اس نے مجھ پر ظلم کیا ‘۔ اس حدیث شریف میں تنبیہ فرمائی مجھ سے بے رخی مناسب نہیں ہے مجھے تکلیف ہوتی ہے میرا تعلق تم سے بہت گہرا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

النبي اولی بالمومنین من انفسھم:(احزاب) اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میںامت اور نبیؐ کے اس تعلق کی کیفیت اور نوعیّت بیان فرمائی ہے، جو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے غلاموں کے ساتھ ہے ۔بتایا تمہاری خیر خواہی ،اصلاح ِ احوال ،فلاح ِ دارین اور تم پر لُطف وکرم فرماتے ہیں میرامحبوب تم پر تمہارے نفسوں سے بھی زیادہ مہربان اور شفیق ہے ۔جتنا میرے نبی کو تمہاری عزّت ،خوشحالی ،اخلاقی برتری کا خیال ہے تمہیں خود بھی اپنا اس قدر خیال نہیں امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت ابوہریرہؓسے ایک حدیث روایت کی ہے ۔

اسے بھی پڑھیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: انما مثلي ومثل امتي کمثل رجل استوقد نارا۔ الخ یعنی ’میری اور میری اُمتّ کی حالت اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی اور مختلف جانور اور پروانے اس میں گرنے کے لیے دوڑتے چلے آرہے ہیں۔ میں تمہیں بچانے کیلئے تمہاری کمروں سے پکڑکر کھینچ رہا ہوں او رتم اس میں گرنے پر اصرار کررہے ہو ۔‘اسی طرح دوسری حدیث شریف میں ہے:

عن ابي ھریرۃ ؓ ان رسول اللہ ﷺ قال: ما من مومن الا وأنا أولی بہ في الدنیا وآلاخرۃ یعنی’ کوئی ایسا مومن نہیں جس کا دنیا وآخرت میں میَں والی نہیں ۔ اگر تم چاہتے ہوتو یہ آیت پڑھو النبی اولی بالمؤمنین الایہ اور جو مومن فوت ہو جائے اور اپنے پیچھے مال چھوڑ جائے تو اس کے قریبی رشتہ دار اس کے وارث ہوںگے اور جو مومن قرضہ وغیرہ چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آئے ،میں اس کا والی ہوں ۔احادیث شریفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ جو زیارت روضہ رسول کے لئے مدینہ منورہ حاضر ہوتے ہیں انکے لئے سب سے بڑی حاصل ہونے والی نعمت یہ ہوتی ہے کہ جب رسول اکرم کی بارگاہ میں زائرین عرض کرتے ہیں:

الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ’ اے اللہ کے رسول آپ پر درودوسلام ہو‘ تو آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہوئے از خود جواب عنایت فرماتے ہیں اے میرے امتی تم سلامت رہو ۔حضور نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کے زبان ِ اقدس سے نکلے ہوئے الفاظ سلامتی کے ضامن بن جاتے ہیں چنانچہ حدیث شریف میں ہے: ما منِ أحد یسلم علي اِلا ردَّ اللہ علّي روحي حتی أرد علیہ السلام ’جو کوئی شخص میری خدمت میں سلام عرض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح کو واپس لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں خود اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں‘۔

یہ فضیلت زائرین کے لئے مخصوص ہے یہاں روح سے مراد وہ روُح نہیں ہے جو میت کے قالب میں ڈالی جائے ۔بلکہ عالمِ استغراق سے اس عالم کی طرف متوجہ کر نا ہے اور اس عالم کے لوگوں کا احساس دلانا کہ سلام اور اس کے جوا ب کا تدارک آسان ہو اور بعضوں نے کہا ہے کہ یہ کلام اہل ظاہر کی سمجھ کے مطابق ہے ۔چونکہ عرف عام میں وفات یافتہ لوگوں کا روح کے بغیر جواب دنیا ممکن نہیں ہے اس لئے ان لفظوں سے تعبیر کردی ۔ اصل مقصد کامل طور پر سلام کا سُننا اور جواب کا دنیا ہے ،جو امتی اپنے اپنے مقامات سے سلام بھیجتے ہیں ان کے سلام کو پہنچنانے کیلئے باضابطہ فرشتے متعین ہیں چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

من صلی علّي في قبري رددت علیہ، ومن صلی علّي في مکان اخر بلغونیہ ’جو شخص میرے قبر کے پاس آکر درود (وسلام) بھیجتا ہے تو میں خود اس کا جواب دیتا ہوں اور جو اپنے مقام سے بھیجتا ہے وہ میری بارگاہ میں پہنچا دیا جاتا ہے‘۔ یہ بات یقینی ہے کہ رسول ِ اعظم ﷺ ہر امتی کے سلام کا جواب دیتے ہیں، ہم میں اکثر وہ ہیں جو ظاہری طور پر آپ کے جواب کو سننے کی قدرت نہیں رکھتے۔ بعض اولیاء ایسے ہیں جو سلام کا جواب سنتے ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ جن کی بدولت دوسرے بھی رسول کریم ﷺ کے جواب کو سنتے ہیں، یہ عاشقانِ رسول کا معاملہ ہوتا ہے، وہ نہایت عشق ومحبت میں ڈوب کر انتہائی ادب واحترام سے بارگاہِ رسالت میں سلام پیش کرتے تو آقا کریم ﷺازخود جواب عنایت فرماتے ہیں چنانچہ :علامہ جامی علیہ الرحمہ کا ایک مشہور واقعہ مختلف کتب میں درج ہے:

عبدالرحمن جامی بڑے پائے کے عاشق رسول ﷺ تھے۔ ان کے دل پر عشق نبی کریم ﷺ اس قدر غالب تھا کہ ایک مرتبہ چُھپ کر مدینہ طیبہ کی جانب چل پڑے۔ترکی سے آنے والے قافلے کو اپنے ساتھ لے جانے کیلئے کہا، پہلے تو قافلے نے انکار کردیا لیکن پھر چند سکوں کے عوض انہیں مدینہ پاک ساتھ لے جانے پر رضا مند ہوگیا اورعبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ کو ایک اونٹ پر موجود صندوق میں بند کردیا۔

جب یہ اونٹوں کاقافلہ جو کہ ترکی سے مدینہ کی جانب رواں دواں تھا جب مدینہ پاک کی سرحد پر پہنچا تو سکیورٹی پر مامور پہرہ داروں نے اس قافلے کو روک لیا اور اسے چیک کرنے لگا۔

قافلے والوں نے بڑی منتیں کیں کہ ہمارے قافلے کو جانے دیا جائے لیکن انہوں نے ان کی ایک نہ سنی اورکہا کہ جب تک آپ لوگ اپنے اونٹوں پر لدے سامان کی مکمل چیکنگ نہیں کرواتے گورنر مدینہ نے مدینہ منورہ میں تمہارے داخلے پر پابندی لگادی۔بیسیوں اونٹوں کی چیکنگ کے بعد ایک اونٹ کو جب بٹھایا گیا اور اس پر لدے ایک صندوق کو کھولا تو اس میں سے جناب عبدالرحمن جامی نکل آئے پس انہیں واپس عراق کی طرف ڈھکیل دیا گیا۔

حضرت عبدالرحمن جامی رحمہ اللہ علیہ بڑے غمگین ہوئے اور رونے لگے۔ پھر دوبارہ عبدالرحمن جامی نے مدینہ کا قصد کیا اورایک بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ چل پڑے، موصل سے یہ بھیڑ بکریوں کا ریوڑ طائف کی طرف رواں دواں تھا علامہ جامی نے اس قافلے والوں سے اجازت طلب کی کہ میں آپ کی ان بھیڑ بکریوں کی حفاظت کروں گا آپ مجھے بھی ساتھ لے چلیں۔

وہ قافلہ راضی ہوگیا اور علامہ جامی کو اپنے ساتھ لے آیا جب مدینہ کے قریب سرحد پر پہنچے تو آپ ایک بھیڑ کی کھال پہن کر سرحد کے دروازے سے مدینہ پاک میں داخل ہو رہے تھے کہ اچانک ایک نقاب پوش گھوڑ سوار نے آپ کو پکڑ لیا اور پکڑ کر گورنر کے سپرد کردیا اورگورنر نے انہیں قیدخانے میں ڈال دیا۔

اسی رات گورنر مدینہ کوخواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی فرمایا کہ تم نے جامی کو قید میں کیوں ڈالدیا وہ کوئی مجرم تو نہیں ہے اسے فوراً رہا کرو کیوں کہ وہ صرف عاشق رسول ﷺ ہے۔

اگر عبدالرحمن جامی مدینہ پاک میں داخل ہوجائیں تو مجھے قانون قدرت کو توڑ کر ان سے مصافہ کیلئے روضہ انور سے باہر آنا پڑے گا۔ علامہ جامی جب بھی نبی کریم ﷺ کے روضہ اطہر پر سلام پیش کرتے تو قبر انور سے آپ کو سلام کا جواب ملتا، تب وہ اپنے وطن واپس لوٹتے۔ بہت سے ایسے عاشقان ِرسول ہیں جو راست رسولِ پاک کے سلام کے جواب کو سن کر ہی اپنے وطن لوٹتے ہیں۔ اس کا تعلق عشق ومحبت اور ادب سے ہے۔

مدینہ شریف کی طرف روانگی سے قبل غسل کرلیں۔ عمدہ سفید لباس پہن لیں۔ مسواک کریں۔حضرت شیخ الحنفیہ کمال الدین ابن ہمام ؓ فرماتے ہیں مدینہ شریف زیارت روضہ رسول کی نیت ہی سے جائیں مسجد نبوی کی زیارت کی نیت علیحدہ کرلیں۔ مدینہ شریف کی طرف روانگی کے وقت ہمیشہ آپ کی زیارت کا کثرت سے اشتیاق اور دربارِ عالی میں پہنچنے کی تمنا ، دیدارِ نبی کی سعادت کی دعا کرتے رہیں۔ دنیا کی آرزو اور سستی وغفلت سے بچتے رہیں۔ روحانیت غالب ہو، نورانیت ظاہر ہو، شوق وذوق ہو، خوشی وسرو ر ہو نور وانوارِ محمدی کے انعکاس کیلئے آمادہ رہیں۔ راستہ تمام رسول ِ پاکؐ پر کثرت کے ساتھ درود پاک پڑھتے رہیں۔ ہمیشہ باوضو رہیں۔

جب حرم شریف طیبہ کے قریب پہنچیں اور وہاں کے مکانات ونشانات وٹیلوں کو دیکھیں تو وظیفہ خضوع وخشوع وآداب گریہ وزاری میں گم رہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ جب مدینہ طیبہ کا زائر قریب پہنچتا ہے تو رحمت کے فرشتے تحفے لے کر اس کے استقبال کیلئے آتے ہیں اور طرح طرح کے بشارات سے شامل ِ حال ہوتے ہیں۔ نورانی طبق اس کے اوپر نچھاور کرتے ہیں۔ منزل مقصود کے قریب ہونے پر ایسا تصور کرے کہ گویا وہ سلطان عالم کے دربار میں حاضر ہوا ہے اور نشانات وپہاڑوں کے دیکھنے سے اس کے دل میں عظمت پیدا ہو۔

تمام اعضاء کو گناہوں سے روکے رہے۔ جناب رسول خدا ﷺ پر درود کا ورد رکھے۔ دل سے آپ کی عظمت مقام کا لحاظ اور فکر رکھے نہ کہ محض زبانی تعلق ۔ بیجا حرکتِ اعضاء اور شور وغل جیسا کہ عوام کا دستور ہے اس سے باز رہے۔ اگر کمالِ مراقبہ حاصل نہ ہو تو خضوع ظاہری اور تکلف سے اچھوں کی مشابہت کو نہ چھوڑے کہ یہ حالت بھی تھوڑے سے استقلال اور استقامت کے بعد اسی حالت کو پیدا کردیتی ہے یا اس کے قریب پہنچادیتی ہے۔

جب مدینہ منورہ اور اس کے قبہ ومنا رے نظر آئیں تو اس تعظیم کی وجہ سے جو دل میں موجزن ہے سواری سے اتر جائیں اگر ہو سکے تو مسجد شریف تک بغیر چپل پیادہ جائیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ جب عبد قیس کے وفد کی نظر آنحضرت ؐ کے جمال بے مثال پرپڑی تواس نے اونٹوں کو بٹھانے سے پیشتر ہی اپنے آپ کو زمین پر گرادیا۔

آنحضرت ﷺ نے ان کو اس سے منع نہیں فرمایاجب حرمِ مدینہ میں پہنچے تو آنحضرت ؐ پر سلام کے بعد یہ دعا پڑھے: اللھم ھذا حرم رسولک فاجعلہ لي وقایۃ من النار وأمانا من العذاب وسوء الحساب، اللھم افتح لي ابواب رحمتک وارزقني فی زیارۃ نبیک ما رزقتہ اولیاء ک واھل طاعتک واغفرلي وارحمني یا خیر مسئوول۔ اس باب میں آنحضرت ؐ پر صلوٰۃ وسلام بھیجنے میں سب سے عمدہ استغراق ظاہری وباطنی ہے۔

اس مقام سے عظمت وجلال کا بھی تصور رہے۔ خوشی اور سرور اس وقت کے لوازمات میں سے ہے۔ اللہ کا فضل شامل کرکے اس مقام اور قبوں کی زیارت کی وجہ سے شکر گزاری میں بہ باطن مشغول رہے۔ وہ بڑے بڑے فتوحات وبرکات جو تمام عالم میں پھیلے ہوئے ہیں ان سب کا سرچشمہ یہی شہر ہے۔ اس خیال سے کہ یہ سرزمین جناب رسول ِ ؐ خدا کے قدموں سے سرفراز کی ہوئی ہے غافل نہ ہو، قدم رکھنے اور اٹھانے میں وہ ہیئت اور سکون جو آنحضرتؐ کو لازم رہا کرتی تھی ان سے موصوف رہے اور یہ تصور کرے کہ آپ کا دربار وہ عالی دربار ہے کہ ادنیٰ سی گستاخی اور بے ادبی (مثل شور وغل وغیرہ) بربادی ٔ اعمال کا سبب ہوجاتی ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا:

ٓٓآدبِ گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید وبایزید ایں جا

مسجد شریف میں داخل ہونے سے پہلے صدقہ کرے ۔ ابتدائے اسلام میں یہ قاعدہ تھا کہ جو شخص آنحضرت ﷺ سے کچھ دریافت کرنا چاہتا تھا تو اس پر واجب تھا کہ کچھ صدقہ کرے اس کے بعد آنحضرت ﷺ سے کلام کرے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے: اذا ناجیتم الرسول فقد موابین یدي نجواکم صدقۃ : جب تم رسول سے باتیں کرو تو اپنی باتوں سے پہلے صدقہ کرو۔ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جس شخص نے اس پر عمل کیا وہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ بعد میں اس کا وجوب منسوخ ہو گیا لیکن استحباب جو صدقہ کی مطلق صفت لازمہ سے ہے باقی رہا۔

آنحضرت ﷺ کی زیارت وفات کے بعد بھی آپ کی حیات کا حکم رکھتی ہے۔ مسجد میں آنحضرت ﷺ کی زیارت کے قصد سے آنے کو تمام چیزوں اور سب کاموں سے مقدم سمجھے کسی دوسرے کام میں مصروف نہ ہو۔ مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے داہنا قدم رکھے۔ جب مسجد شریف میں داخل ہو تو نیت اعتکاف کی کرے۔ اگرچہ قیام کی مدت قلیل ہی ہو۔ تحیۃ المسجد کی نیت سے دورکعت نماز ادا کرے۔ روضہ شریف سے اتنے ہی فاصلے پر کھڑے ہونا چاہئے جتنے فاصلے پر آپ کی حالت حیات میں بطریق ادب کھڑا ہونا مناسب تھا۔

اب چونکہ زائرین کا قیام تانبے کی جالی کے باہر ہوتا ہے۔ لہذا جالی کے متصل یا اس سے فاصلے پر کھڑا ہو تو دونوں طرح جائز ہے۔ دل میں یہ خیال کرے کہ آنحضرت ﷺ اس کی حاضری سے مطلع ہیں۔ آواز حد ِاعتدال میں رہے۔ یعنی نہ بہت بلند ہو نہ بالکل پست ۔ شرم وحیا سے موصوف ہو کر سلام عرض کرے : السلام علیک ایھا النبي الکریم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ تین بار کہے: السلام علیک یا رسول اللہ السلام علیک یا نبي اللہ السلام علیک یا سید المرسلین السلام علیک یا خاتم النبیین۔

جب آنحضرت ؐ کی خدمت میں سلام سے فارغ ہو تو ایک ہاتھ کی حد تک دا ہنی جانب ہٹے اور کہے السلام علیک یا ابابکر الصدیق۔ السلام علیک یا عمر الفاروق۔ مدینہ منورہ میں قیام اور اس کے آداب کا بیان: اس شہر محترم میں قیام کو غنیمت سمجھے اور ساری کو شش مسجد کے اعتکاف اور اس میں قیام میں صرف کریں۔ وہاں کی حاضری میں ہر طرح کے کارِ خیر ونیکیاں اور صدقات نیز اپنے اوقات کو صوم وصلوٰۃ اور جنابِ رسولِ خدا ﷺ پر درود میں مصروف رکھنا لازم سمجھے۔

عبادت کا مسجد کے اس حصے میں مخصوص رکھنا جو زمانۂ نبوت میں تھی بلا شبہ افضل ہے۔ اگر مسجد میں رہے تو حجرہ شریف سے نظر نہ ہٹائے۔ اگر مسجد کے باہر ہو تو روضہ شریف پر نہایت خشوع وخضوع سے نظر رکھے کہ اس کا حکم مستحب ہونے میں مثل خانہ کعبہ دیکھنے کے ہے۔

بارگاہِ ایزدی میں دعاء ہے کہ وہ تمام اہل اسلام کو زیارت حرمین شریفین نصیب فرمائے اور زائرانِ روضہ اقدس کو حاضری کے تمام آداب ملحوظ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں دنیوی واخروی، ظاہری وباطنی فیوض وبرکات سے مالا مال فرمائے آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭