بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی تاریخ: سلطان صلاح الدین ایوبی کی جدوجہد امت مسلمہ کے لیے روشن مثال
خطیب و امام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی، مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلامی تاریخ میں عدل، شجاعت اور دینی غیرت کی اگر کوئی بے مثال شخصیت ہے تو وہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جنہوں نے قبلہ اول کی آزادی کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔
حیدرآباد: خطیب و امام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی، مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلامی تاریخ میں عدل، شجاعت اور دینی غیرت کی اگر کوئی بے مثال شخصیت ہے تو وہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جنہوں نے قبلہ اول کی آزادی کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔
مسجد اقصیٰ کی اہمیت
خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد مسلمانوں کا تیسرا مقدس مقام مسجد اقصیٰ ہے، جو فلسطین کے دارالحکومت القدس (یروشلم) کے مشرقی حصے میں واقع ہے۔ یہ مسجد ایک وسیع احاطے پر مشتمل ہے جس میں پانچ ہزار سے زائد نمازی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں، جبکہ اس کا صحن ہزاروں افراد کی گنجائش رکھتا ہے۔
یہ مقام صرف مسلمانوں ہی نہیں بلکہ عیسائیوں اور یہودیوں کے نزدیک بھی مذہبی تقدس کا حامل ہے، اسی لیے تاریخ کے ہر دور میں یہ سیاسی و عسکری تصادم کا مرکز رہا۔
ابتدائی تعمیر اور انبیاء کرام سے نسبت
اسلامی روایات کے مطابق مسجد اقصیٰ کی بنیاد فرشتوں نے رکھی، بعد ازاں سیدنا آدمؑ، سیدنا سام بن نوحؑ، اور پھر سیدنا داؤدؑ و سلیمانؑ نے اس کی تعمیر و تجدید کی۔ حضرت سلیمانؑ نے جنات کے ذریعے جو عظیم عبادت گاہ بنوائی وہ "ہیکل سلیمان” کے نام سے آج بھی جانی جاتی ہے۔
قرآن و حدیث میں مسجد اقصیٰ کی فضیلت کا واضح ذکر موجود ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“سب سے پہلی مسجد مسجد حرام بنی، اس کے بعد مسجد اقصیٰ، اور ان کے درمیان چالیس سال کا وقفہ ہے۔” (بخاری)
اسلامی فتوحات اور حضرت عمرؓ کا دور
بیت المقدس نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں رومی سلطنت کے قبضے میں تھا، مگر آپ ﷺ نے اس کی فتح کی پیش گوئی فرما دی تھی۔ بالآخر 638ء میں حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں مسلمانوں کو کامیابی نصیب ہوئی اور یروشلم فتح ہوا۔
حضرت عمرؓ نے مسجد اقصیٰ کا احاطہ صاف کرایا اور جنوبی حصے میں نماز کے لیے جگہ مخصوص کی۔ بعد ازاں اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے اسی مقام پر "قبۃ الصخرہ” تعمیر کروایا جو آج بھی اپنی شان و شوکت کے ساتھ موجود ہے۔
صلیبی قبضہ اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی جدوجہد
عباسی دور کے بعد مسلمانوں کی کمزوری اور اندرونی خلفشار کے نتیجے میں صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ اس تاریک دور میں اللہ تعالیٰ نے امت کو ایک عظیم مجاہد عطا فرمایا — سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ۔
سلطان صلاح الدین نے مسلسل 16 بڑی جنگیں لڑیں اور 1187ء میں معرکہ حطین میں صلیبیوں کو شکست دے کر بیت المقدس کو آزاد کرایا۔ انہوں نے مسجد اقصیٰ کو دوبارہ اس کی اصل حالت میں بحال کیا، صلیبی آثار مٹا دیے اور اسے ایک بار پھر مسلمانوں کا مرکز عبادت بنا دیا۔