حیدرآباد

رحمۃ للعالمین ﷺ کی عظمت و مرتبت اور پیغام رحمت

یہ مبارک مہینہ نبی رحمت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی بابرکت آمد کا ہے۔ جو دا نا ئے سبل ہیں نبی الانبیا ء ہیں ختم الرّسل ہیں مو لا ئے کل ہیں، حسن صو رت و حسن سیرت میں یکتا ئے رو ز گا ر ہیں آ پ ﷺ کی ذا ت اقدس انسا نیت کیلئے عظیم تحفہ ہے اس خا ک دان گیتی پر آپ ﷺ کی رونق افروزی اللہ سبحا نہ و تعا لیٰ کا اتنا بڑا انعا م ہے کہ دنیا جہا ں میں اس سے بڑ ا انعا م او ر کو ئی نہیں

مفتی حافظ سیدصادق محی الدین فہیمؔ
Cell No. 9848862786

یہ مبارک مہینہ نبی رحمت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی بابرکت آمد کا ہے۔ جو دا نا ئے سبل ہیں نبی الانبیا ء ہیں ختم الرّسل ہیں مو لا ئے کل ہیں، حسن صو رت و حسن سیرت میں یکتا ئے رو ز گا ر ہیں آ پ ﷺ کی ذا ت اقدس انسا نیت کیلئے عظیم تحفہ ہے اس خا ک دان گیتی پر آپ ﷺ کی رونق افروزی اللہ سبحا نہ و تعا لیٰ کا اتنا بڑا انعا م ہے کہ دنیا جہا ں میں اس سے بڑ ا انعا م او ر کو ئی نہیں او ر انسا نیت پر ایک ایسا بڑ ا احسا ن ہے کہ اور کو ئی احسا ن اس جیسا نہیں،یہ اللہ سبحانہ کافضل و احسا ن ہی ہےکہ حق سبحا نہ و تعا لی نے سا ری انسا نیت کی ہدا یت کیلئے انسا نو ں ہی میں سے ایک عظیم رسول (ﷺ ) کی بعثت فر ما ئی (آل عمران: ۱۶۴) تا کہ انسا نو ں کو ان سے انس ہو، ان کی با ت گو ش ہو ش سے سن سکیں او ر معرفت الٰہی کے نو ر سے اپنے قلوب کو منو ر کر سکیں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قیامت تک آنے والی ساری انسانیت کی صلاح و فلاح، نجات و کامرانی کیلئے یہ عظیم الشان اعلان نشر فرمایا محمد رّسو ل اللہ محمد(ﷺ ) اللہ کے رسول ہیں (الفتح؍۲۹) آپ (ﷺ ) سارے جہانوں کیلئے پیکر رحمت بناکر بھیجے گئے ہیں (الانبیاء: ۱۰۷) آپ ﷺ کے اوصاف و کمالات کا جابجا اللہ سبحانہ نے قرآن پاک میں ذکر فرمایاہے جس سے آپ کی محبوبیت اور پیغمبرانہ عظمت و وجاہت نمایاں ہے۔ آپ ﷺ کی رحمت کسی ایک ملک ایک خطہ یا خاندان و قبیلہ کیلئے مخصوص نہیں بلکہ آپ ﷺ کی رحمت سے سارے جہاں سیراب ہیں۔

ایمان والوں کا نصیبہ تو قابل رشک ہے کہ آپ(ﷺ ) ان کے حق میںرؤف و رحیم ہیں (التوبہ: ۱۲۸) لیکن آپ ﷺ کے دشمن بھی آپ کی رحمت سے محروم نہیں یہ آپ ﷺ کی شان کریمانہ ہے کہ دوست دوشمن کی تخصیص کے بغیر سب پر اپنی رحمتیں نچھاور فرماتے ہیں اور ایسے ابر رحمت بنکر تشریف لائے ہیںکہ سب یکساں اس سے فیضیاب ہیں۔

الغرض ساری انسانیت ہی نہیں بلکہ ساری کائنات کیلئے آپ ﷺ رحمت کا ایک عظیم سائبان ہیں۔ شان ربوبیت یہ ہے کہ ساری کائنات کا خالق و مالک رب العالمین ہے تو اس کے محبوب اور چہیتے بندہ محمد رسول اللہ ﷺ کی شان نبو ت یہ ہے کہ وہ رحمۃ للعالمین ہیں۔ آپ ﷺ کی تشریف آوری سے رحمتوں کے بند دروازے کھل گئے انسانیت کو اس کی کھوئی ہوئی عظمت پھر سے واپس مل گئی۔ مساوات کی تعلیم اور اس کے عملی مظاہروں نے راہ بھٹکے ہوئوں کے قلوب پر دستک دی اور اس سے ان کے دل کھلے، معاشرہ میںدبی کچلی انسانیت کا روحانی کرب دور ہوا اور انسانی دلوں میں آپ ﷺ کی محبت و عظمت ایسی نقش ہوگئی کہ خالق ومالک کے سوا کسی اور کی عظمت و محبت اس کی جگہ نہیں لے سکی، حقیقی نظام جمہوریت سے دنیا پھر ایک مرتبہ آشنا ہوئی، علم وعرفان کے خزانے عام ہوئے، تحقیق و جستجو کی راہیں کھلیں یہ آپ ﷺ کی رحمت ہی تو ہے کہ یہ امت گمراہیوں اور بداعمالیوں کے ارتکاب کے باوجود عام عذاب سے مامون و محفوظ ہے۔ اللہ سبحا نہ و تعا لیٰ ایسا نہیں کریگا کہ ان میں آپ (ﷺ ) کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب سے دو چا ر کرے (الانفال: ۳۳) اور جو کتاب ہدایت اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ ﷺ پر نازل فرمائی ہے وہ ایمان والوں کیلئے باعث شفاء و رحمت ہے، یہ وہ نسخہ شفاء ہے جس کو اختیار کرنے وا لے نفسانی و روحانی امراض سے نجات پا جاتے ہیں (بنی اسرائیل؍ ۸۲)

آپ ﷺ کی ذات اقدس ہی کی طرح آپ کا پیغام ساری انسانیت کیلئے باعث رحمت ہے متقی و پر ہیز گا ر بندو ں کو کتاب ہد ایت را ہ ہدا یت دکھا تی ہے( البقرہ:۲) یعنی اس چشمہ فیضان سے وہی فیضیا ب ہو سکتے ہیں جن کے قلو ب خو ف الٰہی و خو ف آ خرت سے لرزاں و ترساں ہوں لیکن یہ کتا ب ہد ایت صرف ایما ن و ا لو ں ہی کیلئے مخصو ص نہیں بلکہ اس کا نزو ل سا ری انسا نیت کی ہدا یت و رہنما ئی کیلئے ہو ا ہے جس میں ہدا یت کی او ر حق و با طل میںفرق کی نشانیاں موجو د ہیں (البقرہ: ۱۸۵) اللہ سبحانہ اپنی رضا کے متلاشی و طلبگار بندوں کو اس کتاب ہدایت سے سلامتی کی راہ دکھاتا ہے اور ان کو کفر کی ظلمتوں سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لاتا ہے اور سیدھے راستے پر ان کو چلاتا ہے (المائدہ: ۱۶)

یہ وہ رسول گرامی ﷺ ہیں جو حضرت سید نا ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہیں جس دعا میں حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام بھی شریک ہیں۔’’ربنا وابعث فیھم رسولا‘‘ کے کلمات حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے لبہائے مبارک سے یوں نکلے کہ ان کی دلی تمنا لفظوں میں ڈھل کر مقبول بارگاہ حق ہوگئی۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے’’ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ بی بی آمنہ صلوات اللہ علیہا وسلامہ کے خواب کی تعبیر ہوںجو انہوں نے بوقت ولادت مشاہدہ فرمائیں کہ ان سے ایک نور درخشاں ظاہر ہوا جس کی ضیاء باریوں سے شام کے محلات منور ہوگئے تھے‘‘ دعوة أبي إبراهيم وبشارة عيسى ورؤيا أمي التي رأت حين وضعتني أنه خرج منها نور أضاءت لها منه قصور الشام (صحیح ابن حبان ۱۴؍۳۱۲)

چنانچہ اولاد اسماعیل علیہ السلام میں آپ ﷺ کا ظہور ہوا، وہ کعبہ جو مقدس تھا اور مرکز توحید تھا بتوں کی گندگی سے آلودہ ہوگیا تھا، مرکز توحید میں نور توحید کے بجائے کفر و شرک کی تاریکیوں نے ڈیرہ جمالیا تھا، اس کی تطہیر کیلئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ ﷺ کو منتخب فرمایا۔ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بیت اللہ کی تطہیر کا عہد لیا تھا کہ اس کا طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کیلئے اس کو پاک و صاف رکھیں (البقرہ ؍ ۱۲۵)

اس دعا کی قبولیت ہی کا اثر ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اولاد اسماعیل میں اس کام کیلئے آپ ﷺ کو مبعوث فرما کر قیامت تک کیلئے بیت اللہ کی ظاہری تطہیر یعنی نظافت وستھرا ئی او ر معنو ی تطہیر یعنی بتوں کی پلیدی و نجاست دور کرنے کا انتظام فرمایا۔ پھرسے وہ کعبہ مرکز تو حید میں تبدیل ہوگیا۔ بیت اللہ کو بتوں کی نجاست و آلودگی سے پاک کرنے کے ساتھ ان انسانوں کوبھی جن کے سینے کفر و شرک کے بت خانے بنے ہوئے تھے ان کو بھی مسجد حرام میں آنے سے منع فرما کر بیت اللہ کی تطہیر فرمائی۔ ارشاد فرمایا کہ’’ اے ایمان والو! مشرک تو حقیقتاً ناپاک و نجس ہیں اس لئے اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب بھی نہ آنے پائیں‘‘(التوبہ؍۲۸)۔ یہ شرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ ﷺ کو عطا فرمایا چنانچہ فتح مکہ کے بعد آپ ﷺ نے کفار و مشرکین کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے منع فرمادیا۔ ظاہر ہے جو سرتاپا نجس ہیں وہ اس لائق ہی کہاں ہیں کہ ان کو مرکز توحید میں قدم رکھنے دیا جائے۔

فا را ن کی چو ٹیو ں سے آپ ﷺ نے تو حید کا پیغا م نشر فر ما یا، یہ وہی پیغام حق ہے جو اور انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیغام دعوت کی بنیاد ہے۔ اس توحید خالص کے اعلان سے دین ابراہیمی کے نام پر کفر و شرک کی گندگی میں مبتلاء افراد کے دل دہل گئے اور ان کے کفر و شرک کے ایوانوں میں زلزلہ آگیا۔ آپ ﷺ نے وحی الہی کے حوالہ سے ساری انسانیت کو آگاہ کر دیا کہ سب کا معبود ایک ہی ہے۔ بتائو پھر تم اس کو اب بھی مانو گے یانہیں (الانفال؍ ۳۴) آپ ﷺ نے بھی اس ارشاد پاک سے انسانیت کی رہبری فرمائی يا آيها الناس قولوا لا إله إلا الله تفلحوا’’اے انسانو!تم’’ لا الٰہ الا اللہ‘‘ کہو اور فلاح پاجائو یعنی اس پاک کلمہ کا زبان سے اقرار اورا س کا دل سے یقین دونوں جہاں کی فلاح و کامرانی کے باب وا کرتا ہے(سنن البیہقی الکبری ۱؍۷۶)

آپ ﷺ کو حق سبحانہ و تعالیٰ نے النبی الامی کے خطاب سے ملقب فرمایا اور انسانوں کا امی ہونا تو با عث نقص ہوسکتا ہے لیکن آپ کا امی ہونا باعث فضل و کما ل ہے، کیونکہ آپ کا معلم خود خالق کائنات ہے جو علوم و معارف کے خزانو ںکا مالک ہے۔ اس لئے آپ ﷺ کی ذات سے بیش بہا علوم و معارف کے چشمے پھوٹے اور کائنات میں چھپے رازوں سے پردے ہٹے اور ان حقائق و دقائق سے دنیا آشنا ہوئی جو پردۂ غیب میں چھپے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ کا امی ہونا ایک کھلا معجزہ ہے اور آپ کی شان رفیع کا مظہر ہے۔

اسی لئے اس عالم موجودات میں آپ ﷺ سے بڑھ کر جاننے والا کوئی نہیں۔ کائنات کے خالق و مالک نے آپ ﷺ پرکتاب و حکمت کانزول فرمایا اور اپنے فضل عظیم سے آپ کے سینۂ صافی کو علم و معرفت سے معمور فرمایا (النساء: ۱۱۳) اورآ پ ﷺ پر اپنے چشمۂ وحی کا فیضان جاری فرمایا (النساء: ۱۶۳) اس طرح یہ النبی الامی ﷺ ساری انسانیت کے معلم بن گئے۔ حق سبحانہ کی آیات پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں، احکام الٰہی کی حکمتیں بیان فرماتے ہیں، اسرار و غوامض ان پر کھولتے ہیں، ان آ یا ت کی حقیقتیں جب انسانی دلوں کی گہرائیوں میں اترتی ہیں او ران پر اثر انداز ہوتی ہیں تو دلوں کے اندھیارے دور ہوتے ہیں اور دلوں کی دنیا پاک و صاف ہو جاتی ہے۔ قلب و قالب کی تطہیر و تربیت ہوتی ہے اور تز کیہ و تصفیہ سے سنورتے ہیں (مفہوم بقرہ: ۱۲۹، آل عمران: ۲۴، الجمعہ:۲)

توحید ربانی کے بعد اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ سارے انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں،یہ بے مثال اخوت نعمت توحید باری کی دین ہے، اللہ سبحانہ ایک ہے اس کا کوئی شریک و سہیم نہیںوہ بے مثل و بے مثال ہے، وہی قادر و قیوم ہے، ساری کائنات کا خالق، مالک اور پالنہار ہے، اسی نے حضرت آدم علیہ السلام سے انسانوں کا سلسلہ جاری فرمایااس لئے سارے انسان اولاد آدم ہونے کی نسبت سے آپس میں بھائی بھائی ہیں، كُلّكُمْ بَنُوْ آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَاب (تہذیب سنن ابی دائود ۲؍۴۷۱)

اَلنَّاسُ مِنْ جِهَةِ التَّمْثِيْلِ اَكْفَاءُ
اَبُوْهُمُ آدمٌ وَالْاُمُّ حَوَّاءُ
نَفْسٌ كَنَفْسٍ وَاَرْوَاحٌ مُشَاكِلَةٌ
وَاَعْظُمٌ خُلِقَتْ فِيْهِمْ وَاَعْضَاُءُ
فَاِنْ يَّكُنْ لَّهُمْ مِنْ اَصْلِهِمْ نَسَبٌ
يُفَاخِرُوْنَ بِهٖ فَالطِّيْنُ وَالْمَاءُ

پھر انسانوں میں ایک جماعت وہ ہے جواپنے رب کی معرفت سے سرشار ہے اور وہ امت اجابت ہے، دوسری وہ ہے جو اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہے اور وہ امت دعوت کہلاتی ہے، پہلی صنف سے ہمارا ایمانی رشتہ ہے اور وہ ایمانی رشتہ سے ہمارے بھائی ہیں جبکہ دوسری صنف سے ہمارا رشتہ انسان ہونے کی حیثیت سے بھائی بندوں کا ہے۔ اللہ کے نبی سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں رشتوں کو نبھانے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دی ہے۔ مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد آپ ﷺ نے ایمان والوں کے درمیان مواخات کا رشتہ قائم فرمایااور دیگر باطل مذاہب پر قائم انسانوں کو انسانی رشتے سے مواخات کے رشتہ میں جوڑنے کے لئے میثاق یعنی معاہدے طئے فرمائے تاکہ ملک میںامن و امان قائم رہے، نسلی، لسانی،مذہبی یا طبقاتی کسی بھی طرح کی آپسی کشمکش باقی نہ رہے، اس کی وجہ سے کوئی فساد و بگاڑ کا دروازہ نہ کھلے اور سارے انسان تباہی و بربادی، قتل و غارت گری و خوں ریزی سے محفوظ رہیں۔ سب جانتے ہیں کہ سیدنا محمدرسول اللہ ﷺ کا لایا ہوا پیام رحمت ساری انسانیت کے لئے ہے، آپ ﷺ کی تعلیمات زمان و مکان کے حدود سے آگے بڑھ کر عالمگیری شان کی حامل ہیں، وہ انسانی برادری کو جغرافیائی حدود میں مقید نہیں کرتیں۔

ہر ملک، ہر خطہ میں رہنے والے، مختلف بولیاں بولنے والے، کسی بھی رنگ و نسل کے انسانوں کے درمیان کوئی دیوار نہیں کھڑی کرتیںبلکہ سب کو بحیثیت انسان آپس میں بھائی بھائی بتاتی ہیں، انفرادی و اجتماعی سطح پر انسانیت واحدہ کا یہ تصور صرف اسلام کی دین ہے جو ساری دنیا کو امن و آمان کا گہوارہ بنا سکتا ہے۔ آج کچھ ناعاقبت اندیش خود غرضی کی وجہ اندھے کچھ انسانیت دشمن طاقتیں حرص و طمع اور اپنی بالا دستی قائم رکھنے کے لئے کچھ حکومتیں اپنے آپ کو ’’انا‘‘ کی خول میںمحصور کر کے انسانوں کو علاقہ، زبان، مذہب وغیرہ کی بنیادوں پر تقسیم کر کے انسانوں کے درمیان نفرت کا زہر گھولنا چاہتی ہیں تاکہ انسان ان بنیادوں پر لڑتے مرتے رہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو ذہنی صلاحیتیں دی ہیں وہ ان کو اچھے کاموں میں صرف کرکے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ دکھی انسانیت کیلئے نفع بخش بناسکتا ہے: خیر الناس انفعہم للناس (کنزالعمال: ۱۵؍۷۷۷) مسلمان ہر حال میں انسانوں کے خیر خواہ اور ان کے حق میں نافع بنیںان کی نفع بخشی دنیوی،دینی و اخروی ہر جہت سے ہونی چاہئے، یہی پیغام رحمت خاک دان گیتی کو انسانیت کا پاسدار اور روحانیت کا گل وگلزار بناسکتا ہے۔

لیکن کچھ نا عاقبت اندیش انسانوں نے اللہ سبحانہ کی عطا کردہ ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کر کے جہاں غیر معمولی، سائنسی ترقی اور بہت سے فطری، مخفی گوشوں تک رسائی حاصل کی ہے، وہیںبے پناہ جوہری طاقت بھی حاصل کرلی ہے۔ ظاہر ہے اس کا استعمال بر موقع و محل ہو تو وہ بھی فتنہ و فساد کو مٹانے اور ظلم کرنے والوں کا دفاع کرنے میں مدد گار ہو سکتا ہے لیکن اس وقت کچھ بڑی طاقتوں نے اس جوہری توانائی کے بل بوتے پر ساری دنیا کو انتشار و فساد کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں جنگ چھڑی ہوئی ہے، جان و مال اور انسانی صلاحیتوں کا بڑے پیمانہ پر ضیاع ہو رہا ہے، اس وقت سارے عالم، خاص کر عالم اسلام میں جو تباہی مچی ہے اور جو وحشت و درندگی چھائی ہوئی ہے وہ سب اسی جوہری توانائی کی دین ہے۔

چنانچہ فلسطین پر اسرائیلی بربریت کی ایک طویل تاریخ ہے لیکن حالیہ جنگ جو۷؍اکتوبر۲۰۲۳ءکو شروع ہوئی وہ رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے، فلسطین خون میں نہارہاہےگویا فلسطینیوں کا خون پانی کے چند قطروں سے بھی زیادہ ارزاں ہے، جہاں شہید ہونے والے معصوم بچے بچیوں، بزرگ مرد و خواتین، نوجوان لڑکوں و لڑکیوں، زخمی اور معذور وں کی تعداد شمار کرنا مشکل ہے۔ اسرائیلی درندگی وبربریت نے انسانی ساری حدوں کو پار کردیا ہے جس سے درندے بھی شرمسار ہیں، جو زندہ ہیں وہ بھی گویا زندہ نعشیں ہیں، جوخوف وہراس کے عالم میں کشمکش حیات سے دوچار ہیں،ان کی دلخراش آہیں دردمند انسانوں کے دلوں پر کچوکے لگارہی ہیں، مذمت و افسوس اظہار تعزیت و تاسف کے سارے الفاظ اپنے معنی کھوتے جارہے ہیں، تاریخ کے دامن میں ایک نئی داستان بربریت ودرندگی رقم ہورہی ہے۔ ذرائع ابلاغ سے سارا عالم جس کا مشاہدہ کررہاہےجو بے حس ہیں وہ دنیا میں رہکر بھی گویا گورستان کے باسی ہیں، یہ خونریزی اور سارا فساد وبگاڑ جوہری توانائی کے بل بوتے پر ان درندہ انسانوں کا برپا کیا ہوا ہے جو خالق کائنات کی معرفت اس کی قدرت وشوکت، طاقت وقوت، اس کے جلال وجبروت سے غافل دنیا میں ظلم کے انجام بداورآخرت میں اس کی گرفت سے بے خوف ہیں۔

انسان دشمن، مذہب بیزار بڑی طاقتوں نے پہلے تو مذہبی تہذیب و تمدن کے حدود کو توڑا جس سے انسانیت اخلاقی و روحانی اعتبار سے گراوٹ کا شکار ہو گئی، بے حیائی و بدکاری نے معاشرہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیاجس سے انسانوں کا اور معاشرہ کا سکون درہم برہم ہو گیا۔ روحانی و اخلاقی اعتبار سے انسانوں کا گلا گھونٹنے کے بعد انسانی جانوں پر ظلم ڈھانے اور ان کو موت کے گھاٹ اتارنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، انسان دشمن طاقتوں نے اپنے ہاتھوں سے اس دنیا کو جہنم زار بنا دیا ہے، دنیا بھر کے سارے سنجیدہ اور انسانیت پر یقین رکھنے والے انسانوں کو اس انسانیت کے خلاف ہونے والی سازش کو سمجھناچاہئے اور اس کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

نبی رحمت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے الہ واحد کی پرستش کے بعد جو انسانی اخوت اور ان کے درمیان مساوات و برابری کا عالمی پیام انسانوں کودیا ہے پھر سے اس کو زندہ کرنے اور عالمی برادری میں وحدت انسانیت کی روح پھونکنے کی ضرورت ہے، انسان دشمن طاقتیں جو جوہری توانائی کی موجد ہیں اور جن کا مقصد ’’لڑاؤ اورـــــــ حکومت کرو، اسلحہ فروخت کرو اور دولت کماؤ‘‘ ہے ان کو بھی اس پیام انسانیت سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے، ظاہر ہے جب یہ پیغام ان تک پہنچے گا اور ان کے دل میں رسوخ کرے گاتب کہیں جا کر دنیا سے فتنہ و فساد کا سد باب ہو سکے گا۔ حضرت نبی کریم سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مصالحانہ کوششوں کے لئے ان ظالم طاقتوں سے گفت وشنید کرنے اور ان کو ایمان کی دعوت دینے کی ضرورت ہے،

جیسے آپ ﷺ نے مختلف سربراہان مملکت جیسے نجاشی شا ہ حبش، قیصر روم ہرقل، خسرو پرویز کسریٰ، شاہ یمامہ حارث غسانی، شاہ مصر مقوقس، بحرین کے ایک حصہ پر حکمراں ہلال بن امیہ، منذر بن ساویٰ وغیرہ کے ساتھ کئی ایک سرداران قبائل کے نام دعوتی، تبلیغی واصلاحی خطوط روانہ فرمانے کا اہتمام فرمایا، ہمارا بھی فرض ہے کہ موجودہ ترقیاتی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے ہر طرح کی کوشش جاری رکھتے ہوئے دشمنا ن انسانیت کو دین کی دعوت دیں اور حضرت نبی کریم سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے پیام انسانیت سے ان کو واقف کروائیں، اگر وہ ایمان کی دعوت قبول نہ کریں تو انسانی رشتہ کا لحاظ رکھتے ہوئے معاہدات امن طئے کرنا چاہئے۔

اس پیغام رحمت کے امین چونکہ اسلام کے علمبردار ہیں، ان کو تو ہر طرح کوشش کر کے انسان دشمن طاقتوں کے خلاف متحد ہوجانا چاہئے اور دشمن طاقتیں راہ راست پر نہ آئیں توایسا منصوبہ بھی طئے کرنا چاہئے جس سے ان کو سبق سکھایا جا سکے اور ان کو ان کے اپنے ناپاک عزائم سے باز رکھا جا سکے، اس مقصد کے لئے مسلمان اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، اسلامی احکامات پر عمل کرتے ہوئے‘ كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ‘ سیسہ پلائی ہوئی عمارت کی مانند اپنی مادی وروحانی طاقت و قوت کا مظاہرہ کریں۔ اسی میں دنیا کی کامیابی اور آخرت کی سرفرازی مضمر ہے،تبھی مسلمان رحمۃ للعالمین ﷺ کی عظمتوں کا پھریرا سارے عالم میں لہراسکتے اور اس پیغام رحمت کا عملاً امین ہوناثابت کرسکتے ہیں۔
٭٭٭