اکلوتا بیٹا غصہ اور جلال میں آکر بیوی کو اس قدر مارتا ہے کہ وہ کبھی بے ہوش ہوجاتی ہے (ایک مظلوم باپ کا سوال)
میں ایک موظف ملازم آبکار ہوں۔ وظیفہ پر علاحدہ ہوکر بیس سال سے زیادہ عرصہ گزرگیا اور ایک معقول رقم کا وظیفہ ملتا ہے جو میرے اور بیوی کی دواؤں ‘ علاج اور کھانے پینے میں خرچ ہونے کے بعد بھی تیس ہزار روپیہ کی بچت ہوتی ہے جو میرا اکلوتا بیٹا زبردستی چھین لیتا ہے۔
سوال:- میں ایک موظف ملازم آبکار ہوں۔ وظیفہ پر علاحدہ ہوکر بیس سال سے زیادہ عرصہ گزرگیا اور ایک معقول رقم کا وظیفہ ملتا ہے جو میرے اور بیوی کی دواؤں ‘ علاج اور کھانے پینے میں خرچ ہونے کے بعد بھی تیس ہزار روپیہ کی بچت ہوتی ہے جو میرا اکلوتا بیٹا زبردستی چھین لیتا ہے۔
اس کے علاوہ میرے رہائشی گھر کے علاوہ تین اور مکانات ہیں جن کا کرایہ وہ ہضم کرلیتا ہے۔ میری زرعی اراضیات جو میں نے زمانۂ ملازمت میں1980ء میں خریدی تھیں جن کا رقبہ 17 ایکر ہے ان کی قیمت آج کل بہت ہی زیادہ ہے۔ سرکار کی جانب سے فی ایکر 5ہزار روپیہ رقم بطورِ امداد ہوتی ہے۔ کھیتوں کی فصل یعنی جوار‘ چاول وغیرہ سب کچھ وہ فروخت کردیتا ہے ۔
عادتیں انتہائی خراب ‘ علاقہ تلنگانہ کے تعلقوں کا ماحول کیسا ہوتا ہے آپ جانتے ہوں گے۔ اس کے تمام دوست غیر مسلم ہیں‘ تلگو زبان بہت اچھی بات کرتا ہے کیوں کہ تلگو اسکول میں تعلیم ہوئی۔ اس کی عادتیں بہت خراب ہیں جن پر اس کی ماں پردہ ڈالتی رہتی ہے۔
اس کی بیوی ایک نیک اور مظلوم لڑکی ہے جو اس کے ظلم اور گالیوں اور کبھی مار پیٹ کو بھی برداشت کرتی ہے۔ غیر مسلم دوستوں کی وجہ سے اس کی شامیں شراب خانوں اور ہوٹلوں اور ریسارٹس میں گزرتی ہیں۔ تین چار آوارہ اور بدخصلت نوجوانوں کے ساتھ رہتا ہے اور ان کے اخراجات برداشت کرتا ہے۔
مکانات کے کرائے اور میرے پنشن سے اتنی بھاری رقم مل جاتی ہے کہ اس کی عیاشیوں کیلئے کافی ہے۔ میری بڑی تین بیٹیاں ہیں جن کی شادیاں ہوچکی ہیں چونکہ یہ بدبخت سب سے چھوٹا اور اکلوتا بھائی ہے تمام بہنوں اور ماں کی آنکھ کا تارہ ہے ۔
میں نے ہر وقت اس کی بدکاریوں پر سرزنش کی لیکن اب وہ اس قدر ڈھیٹ ہوچکا ہے کہ مجھے بھی گالیاں دینے لگا ہے ۔ ایک بار جب پنشن سے رقم نہ ملی تو شراب میں کوئی نشہ آور چیز ملا کر پی گیا اور دواخانہ میں شریک کرنا پڑا۔ یہ سب تو برداشت کرتا چلاگیا ‘ لیکن اب وہ کچھ اور ہی مطالبہ کرنے لگا ہے۔
اس کے بدمعاش دوستوں نے اس کی ملاقات بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک لیڈر سے کروائی جو اراضیات کو ڈیولپ کرکے پلاٹنگ کرتا ہے۔ میری سترہ ایکر اراضی کا پٹہ میرے اور بیوی کے نام پر ہے۔ اب وہ کہہ رہا ہے کہ وہ بی جے پی لیڈر کے ساتھ ڈیولپمنٹ کرنا چاہتا ہے اور مجھے اور ماں کو مجبور کررہا ہے کہ اس کے مطالبہ کو تسلیم کرلیں۔
میں نے مقامی دیندار حضرات سے تقسیم جائیداد کی صلاح لی۔ انہو ںنے کہا کہ تازندگی آپ دونوں اس اراضی کے مالک ہیں لیکن آپ کے بعد یہ اراضی چھ حصوں میں تقسیم ہوگی۔ یعنی ہر بیٹی کے حصہ میں ایک اور ایک بیٹے کے حق میں دو حصے آئیں گے۔ مگر وہ اس تقسیم پر راضی نہیں اور گاؤں کے پرانے دستور کے مطابق بیٹیوں یا بیٹی کا حصہ دو آنے ہوتا ہے ‘ اسی بے بنیاد اصول کی رٹ لگارہا ہے۔ اس نے میری اور اپنی ماں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ اب ماں بھی بہت متفکر ہوگئی ہے اور اس کی عادتوں کی وجہ سے پریشان رہتی ہے۔
مجھے سخت اندیشہ ہے کہ کہیں مجھے اور اپنی ماں کو مجبور کرکے کسی کاغذ پر ہمارے دستخط لے کر متذکرہ ڈیولپر کے ساتھ کوئی معاہدہ کرلے۔ مجھے 45سال قبل کچھ ہزار روپیہ فی ایکر خریدی ہوئی اراضی خطرے میں نظر آرہی ہے جس کی قیمت آج کئی کروڑ روپیہ فی ایکر ہے۔
بیٹے کے راہِ راست پر آنے کی کوئی امید نہیں۔ ہمیشہ بیوی کو طلاق دینے کی دھمکیاں دیتا ہے اور کبھی کبھی خودکشی کرنے کی بھی دھمکی دیتا ہے۔ دن اور رات ہمیشہ شراب کے نشہ میں رہتا ہے اور اس شوق پر لاکھوں روپیہ اپنے اوباش دوستوں کے ساتھ خرچ کرتا ہے۔
غصہ اور جلال میں آکر بیوی کو اس قدر مارتا ہے کہ وہ کبھی بے ہوش ہوجاتی ہے ۔ غریب گھر کی بیٹی ہے اس لئے واپس بھی نہیں جاسکتی۔ اس قدر بیزار ہوں کہ کبھی کبھی اسے قتل کردینے کے بارے میں سوچتا ہوں کہ کسی طرح اس عذاب سے نجات حاصل ہو۔ لیکن بعد میں توبہ کرلیتا ہوں۔
بہر حال زندگی مصیبت میں گزررہی ہے۔ سب کچھ ہونے کے بعد بھی کچھ نہیں ۔ ذیابطیس کا مریض ہوں ‘ یہی حال بیوی کا بھی ہے ۔ کروں تو کیا کروں اور نہ کروں تو کیا نہ کروں۔
اس بارے میں مجھے آپ سے بڑی امید وابستہ ہے ۔ کچھ ایسا راتہ نکالیئے کہ میری بیٹیوں کا حق بھی محفوظ رہے اور بے چاری بہو اور اس کے دو بچوں کا مستقبل محفوظ رہے اور مجھے بھی آئندہ کوئی مشکل نہ ہو۔ لوگوں نے نہیں بلکہ ایک مقامی غیر مسلم ایڈوکیٹ نے اسے عاق کردینے کے لئے کہا ۔ کیا ایسا کرنا ممکن ہے؟
براہِ کرم میری مدد کیجئے۔ میں وہی کروں گا جو آپ تجویز کریں۔ اس تفصیل کو آپ کے موقر روزنامہ میں شائع فرمائیے۔ نام ۔ گاؤں کا نام اور ضلع کا تذکرہ مت فرمائیے۔ اشاعت کے بعد میں ایک کاپی اس نافرمان کے پاس بھیجوں گا ‘ گو کہ وہ اردو نہیں پڑھا ہے لیکن ٹاؤن میں بہت لوگ اردو پڑھتے ہیں اور آپ کا اخبار بھی آتا ہے۔
جواب:- فطرتِ انسانی کے عظیم نبض شناس ولیم شیکسپئر نے کہا کہ ایک نافرمان بیٹا سانپ کے (VENOM) سے زیادہ زہرناک ہوتا ہے ۔ اس معاشرہ میں آپ اکیلے ہی نہیں جو ان روح فرساء حالات سے دوچار ہیں۔ دورِ حاضر میں لوگوں کا شمار صرف یہ رہا ہے کہ ساری زندگی کماؤ اور اتنی جائیدادیں کھڑا کردو کہ آنے والی کئی نسلوں کو جدوجہد کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ جب اتنی ساری جائیدادیں ہوں کہ کئی نسلوں کے اخرجات کے لئے کافی ہیں تو جدوجہد کرنے کی اور علم و فن حاصل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
عالم یہ ہے کہ نام نہاد نو دولتیوں نے کروڑوں روپیہ مالیتی کاریں خرید کر اپنے نکمے اور بے راہ رو بیٹوں کے حوالے کردی ہیں تاکہ وہ شہر کی سڑکوں پر تیز رفتاری سے کار چلائیں اور لوگوں کی زندگی کے لئے خطرہ بن جائیں۔ مسلم معاشرہ میں دولت کی بہتات ایک مہلک بیماری کی شکل اختیار کررہی ہے اور ہر جانب فضول خرچیاں جاری ہیں اور شیطان سے برادرانہ تعلقات قائم کئے جارہے ہیں ۔
دولت کا غلط استعمال تباہیوں کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ سلطنتوں کا زوال اور خلافتوں کا خاتمہ ۔ اس کے پس پشت عیاشیاں ہی تو تھیں۔ سلطنتِ مغلیہ کا زوال آپ جانتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اورنگ زیبؒ کے بعد بادشاہوں کی عیاشیاں ہی تو تھیں۔ شاہ رنگیلا کا نام تو آپ نے سنا ہوگا ۔ وہ برہنہ تخت پر بیٹھتا تھا اور درباری امرا ء کو بھی یہی حکم تھا کہ وہ عالم برہنگی میں دربار میں آئیں۔
علاء الدین خلجی کے نالائق بیٹے کے کرتوت آپ کے سامنے ہیں جس نے باپ کی بنائی ہوئی عظیم الشان سلطنت کو کس طرح پامال کیا ۔ شراب نوشی اور عیاشیاں ہی وہ اوامر تھے جو زوال کا باعث بنیں۔ آج بھی یہ نو دولتیئے خود کو کسی بادشاہ سے کم نہیں سمجھتے۔ رئیل اسٹیٹ تجارت نے جو کردار و اخلاق کو تباہ کیا‘ اس سے سب واقف ہیں۔ لوگ نہیں جانتے کہ ہماری قوم کن مشکل حالات سے گزررہی ہے۔ ہمارا وجود تک خطرے میں پڑگیا ہے۔ لیکن پھر بھی آنکھ نہیں کھلتی کیوں کہ غفلت کے دبیز پردے جو پڑے ہوئے ہیں۔ شادیوں میں شاہ خرچیوں کا یہ عالم ہے کہ دولہے کی کار کے آگے ایک گھوڑا سوار دستہ ہوتا ہے گویا کسی جہاد میں شامل ہونے والے لشکر کا ہر اول دستہ ہے ۔ ہر سوار ہزاروں روپیوں مالیتی شروانی اور پگڑی میں ملبوس رہتا ہے۔ میوزک اور ڈانس۔ استغفراللہ۔
اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ کہ ایسی منحوس شادیاوں میں مشائخ حضرات بھی شامل ہوتے ہیں اور ان میں اتنی دینی حمیّت نہیں کہ ایسی خلافِ اسلام ‘ خلافِ اخلاق بلکہ مخرب اخلاق شادیوں میں شرکت سے انکار کریں۔ وہ انکار بھی کیسے کرسکتے ہیں جبکہ شادیوں میں شریک مقامی ’’ قومی رہنما ‘‘ بھی تو رہتے ہیں۔ قوم پر آنے والی تباہیوں کا یہ عوامل پیشہ خیمہ ہیں۔ کچھ دیر کیلئے سوچیئے اگر تلنگانہ میں خدانخواستہ زعفرانی پارٹی برسراقتدار آجائے تو کیا ہوگا۔ کہاں رہے گی اس وقت یہ طمطراق ! حیدرآباد بھاگیہ نگر بن جائے گا ور کئی مساجد غیر مجاز تعمیر کی آڑ میں منہدم کردی جائیں گی۔ فلم ’’ رضاکار‘‘ کی نمائش مسلمانوں کے خلاف نفرت کا سیلاب لائے گی۔ اس بات کو نہ بھولنا چاہیے۔ دولت کا غلط استعمال اس قوم کو برباد کردے گا جیسے کہ پہلے سے ہوتا آیا ہے۔
آپ فکر مند نہ ہوں۔ اگر نافرمان بیٹا خودکشی کی دھمکی دیتا ہے تو فکر نہ کیجئے ۔ وہ ا پنی سیاہ کاریوں کے انجام کو پہنچ جائے گا اور آپ کو راحت کا سامان بہم پہنچائے گا۔ لیکن وہ کبھی ایسا نہ کرے گا۔ وہ صرف آپ دونوں کے نازک جذبات سے کھیل رہا ہے۔ بیٹیوں کا حق روپے میں دوآنے ! یہ بات کہاں سے آئی سمجھ سے باہر ہے۔
آپ اولین فرصت میں اپنی تمام جائیدادوں کا حساب کیجئے۔ جائیداد کے مناسب چھ حصہ کیجئے۔ دو متذکرہ نالائق کے لیے اور ایک حصہ فی کس بہن کے لئے ۔
ہر ایک حصہ ہر بیٹی کے نام بذریعہ ہبہ میمورنڈم تقسیم کرکے اس ہبہ نامہ کی بنیاد پر بیٹیوں کے نام پر پٹہ پاس بک جاری کروائیے۔ مکانوں کی بھی تقسیم اسی انداز سے کیجئے۔ نالائق فرزند کا حق یعنی 2/6حصہ بھی اسی انداز سے دے دیجئے۔ اپنے وظیفہ میں سے ایک پیسہ بھی اسے مت دیجئے۔ تمام مکانوں کا کرایہ خود وصول کیجئے۔ یا دوسری صورت میں اپنی ساری جائیداد تعلقہ کی بڑی مسجد کے نام وقف کردیجئے۔ آپ اس بات کا ارادہ تو کیئجے‘ پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے۔
آپ کو اولین فرصت میں یہ کام کرنا ہے۔ اگر آپ یہ کام کر نہ سکیں تو کچھ بھی مت کیجئے۔ بیٹے کی جانب سے پیش کئے ج انے والے کسی دستاویز پر آپ اور آپ کی بیوی دستخط نہ کریں چاہے جان چلی جائے۔
آپ کے بعد آپ کی چاروں بیٹیاں عدالت کے ذریعہ سے اپنا حق خود وصول کرلیں گی اور اس وقت نالائق بیٹے کو پتہ چل جائے گا کہ روپیہ میں دوآنے حصہ کا اصول کس حد تک درست ہے اور کس حد تک غلط ۔ اپنی صحت کاخیال رکھیئے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰