پی ایف آئی پر امتناع کا منصوبہ،مرکزی وزارتِ داخلہ کے عہدیدار مکمل تیاری کے خواہاں
چھاپوں کے فوری بعد مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ نے مشیر قومی سلامتی اجیت دوول اور این آئی اے سربراہ کے ساتھ میٹنگ کی تھی۔ اس میٹنگ میں ہدایت دی گئی کہ پی ایف آئی کے خلاف اکٹھا حقائق کا جائزہ لیاجائے اور آگے کی کاروائی کی جائے۔
نئی دہلی: پاپولرفرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کے مختلف ٹھکانوں پر این آئی اے اور ای ڈی کے ملک گیر چھاپوں کے بعد وزارتِ داخلہ‘تحقیقاتی ایجنسیوں کے اکٹھاکردہ ثبوت کی بنیاد پر اس انتہاپسند گروپ پر امتناع عائد کرنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔
امتناع عائد کرنے سے قبل وزارتِ داخلہ کے عہدیدار پوری تیاری کرناچاہتے ہیں تاکہ عدالت میں چیلنج کرنے کی صورت میں ان کا موقف کمزور نہ پڑے۔ 22 ستمبر کو15ریاستوں میں دھاؤں میں تحقیقاتی ایجنسیوں کو پی ایف آئی کے دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا ٹھوس ثبوت ملا ہے جس کی بنیاد پر اسے عنقریب ممنوع قراردیاجاسکتا ہے۔
چھاپوں کے فوری بعد مرکزی وزیرداخلہ امیت شاہ نے مشیر قومی سلامتی اجیت دوول اور این آئی اے سربراہ کے ساتھ میٹنگ کی تھی۔ اس میٹنگ میں ہدایت دی گئی کہ پی ایف آئی کے خلاف اکٹھا حقائق کا جائزہ لیاجائے اور آگے کی کاروائی کی جائے۔
ذرائع کے بموجب مرکزی وزارتِ داخلہ پی ایف آئی پر امتناع عائد کرنے سے قبل قانونی مشورہ بھی لے رہی ہے تاکہ پی ایف آئی کے عدالت سے رجوع ہونے کی صورت میں حکومت اپنے اقدام کو حق بجانب ٹہرانے کیلئے تیاررہے۔
یہ اس لئے کیاجارہا ہے کہ مرکزی حکومت کو سال 2008ء میں سیمی پر امتناع واپس لینا پڑاتھا‘ تاہم سپریم کورٹ نے بعد میں یہ امتناع عائد کردیاتھا۔ اس بار حکومت کو کوئی جلدی نہیں ہے اور وہ کوئی کسر نہیں چھوڑناچاہتی۔ اسی لئے کیس کومضبوط بنایاجارہا ہے۔
پی ایف آئی پر امتناع سے قبل تمام قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیاجارہا ہے۔ جانکاری ملی ہے کہ مختلف ایجنسیاں کئی سال سے پی ایف آئی کے خلاف ثبوت اکٹھاکررہی تھیں۔ مرکزی وزارتِ داخلہ نے ہدایت دی تھی کہ پی ایف آئی کی کوئی بھی کڑی چھوٹنے نہ پائے۔
این آئی اے کی تحقیقات تنظیم کی غیرقانونی سرگرمیوں پر مرکوز تھیں جبکہ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ اس کے مالی ذرائع کا پتہ چلانے میں کامیاب رہی۔ ای ڈی کے قریبی ذرائع نے بتایاکہ دوران تحقیقات پی ایف آئی کے کھاتوں میں 60 کروڑ روپیوں کی مشتبہ معاملتوں کا پتہ چلا ہے۔
پتہ چلا ہے کہ رقم حوالہ کے ذریعہ پی ایف آئی کو بھیجی گئی تھی۔ ہندوستان رقم بھیجنے کیلئے خلیجی ممالک میں کام کرنے والے مزدوروں کے بینک کھاتے استعمال کئے گئے۔ 2017ء میں این آئی اے نے مرکزی وزارت داخلہ کو دی گئی اپنی رپورٹ میں پی ایف آئی پر امتناع کا مطالبہ کیاتھا۔
کئی ریاستیں بھی اس تنظیم پر امتناع کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ آئی اے این ایس سے بات چیت میں اترپردیش کے سابق ڈی جی پی وکرم سنگھ نے کہا کہ کئی وجوہات کی وجہ سے تاخیر ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پی ایف آئی پر امتناع پانچ سال پہلے ہی عائد ہوجاناچاہئیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ ٹھوس ثبوت جٹانے میں کافی وقت لگتا ہے۔ پی ایف آئی پر امتناع نہ لگنے کی ایک وجہ اسے حاصل سیاسی تائید ہے۔ بعض جماعتوں کے قائدین یہاں تک کے ارکان پارلیمنٹ نے پی ایف آئی کو سماجی تنظیم کہاتھا۔ اس کے حامی کئی ریاستوں میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ پی ایف آئی کی حلیف ایس ڈی پی آئی نے کئی ریاستوں میں الیکشن لڑا۔
یہی وجہ ہے کہ پی ایف آئی کے خلاف کاروائی سے قبل کافی تیاری کی گئی۔ وکرم سنگھ نے کہا کہ ان کی جانکاری کے مطابق پی ایف آئی کی فنڈنگ کے تار ترکی کی ایجنسی اور پاکستان کی آئی ایس آئی سے جڑے پائے گئے ہیں۔ لڑکوں کو اسلامک اسٹیٹ میں بھرتی کیلئے بھیجاگیا۔
ای ڈی اور این آئی اے نے ان کڑیوں کو جوڑنے مکمل تیاری کی تاکہ سخت کاروائی ہوسکے۔ فی الحال حکومت جھارکھنڈ نے پی ایف آئی پر امتناع عائد کررکھا ہے۔ مرکزی وزارت داخلہ کی ویب سائٹ کے بموجب حکومت نے 1967ء کے یو اے پی اے قانون کی دفعہ 35کے تحت39 تنظیموں پر امتناع کیا ہے۔
ان تنظیموں میں لشکرطیبہ‘ جیش محمد‘حزب المجاہدین‘ جموں و کشمیر اسلامک فرنٹ‘ یونائیٹیڈلبریشن فرنٹ آف آسام‘ نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈولینڈ‘ لبریشن ٹائگرس آف ٹامل ایلم‘ اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا‘ البدر‘ القاعدہ‘ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(ماؤسٹ)‘ انڈین مجاہدین اور اسلامک اسٹیٹ/ آئی ایس آئی ایس شامل ہیں۔