مذہب

حضرت محمد ﷺ کی بعثت نوع انسانی پر اللہ کا سب سے بڑا انعام ہے!

انبیاء و مرسلین کو قوموں کی طرف روانہ کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ بھٹکی ہوئی انسانیت راہ راست پر آجائے اور ہر طرح کی افراط و تفریط سے ان کی زندگیاں پاک ہوجائے، جسے صراط مستقیم اور سواء السبیل (سیدھا راستہ اور اعتدال کی شاہراہ) کہا گیا ہے۔

مولانامحمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگارو آزاد صحافی۔ Cell:9849099228

انبیاء و مرسلین کو قوموں کی طرف روانہ کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ بھٹکی ہوئی انسانیت راہ راست پر آجائے اور ہر طرح کی افراط و تفریط سے ان کی زندگیاں پاک ہوجائے، جسے صراط مستقیم اور سواء السبیل (سیدھا راستہ اور اعتدال کی شاہراہ) کہا گیا ہے۔

اس سلسلہ میں ارشاد ربانی یوں ہوا: ’’ ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کردیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو ‘‘ (سورہ نحل: 36)

گذشتہ امتوں میں جو انبیاء تشریف لائے وہ ایک خاص خطہ اور علاقہ کی حد تک ہی تھے لیکن حضرت آخر الزماں سرکار دو عالم ﷺ کا معاملہ ایک عالم گیر حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اب آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی و رسول آنے والے نہیں ہیں، اگر کوئی شخص اپنے نبی ہونے کا دعویٰ لے کر اٹھتا ہے تو وہ قطعی طور پر جھوٹا ہے اور اس کے کافر ہوجانے میں ذرا برابر بھی شک کی گنجائش نہیں ہے، لہٰذا محمد رسول اللہ ﷺ آخری نبی و رسول کے ساتھ ساتھ سارے جہاں والوں کیلئے رحمت بناکر مبعوث فرمائے گئے۔

اب رہنمائی و رہبری کیلئے قیامت تک آپ ﷺ کی تعلیمات سارے انسانوں کی دنیا و آخرت کی کامیابی اور ان کی سرفرازی کیلئے حرف آخر کی حیثیت رکھتی ہے،اگر کوئی آدمی آپ ﷺ کی تعلیمات سے رو گرداں ہوکر اپنے طبع ذات دین کو اختیار کرے گا وہ یقینا ناکام و نامراد ہوگا اور اس کا یہ عمل عند اللہ نا مقبول ہوگااور وہ اپنے کو عذاب جہنم کا مستحق بنالے گا۔ نبی ﷺ نے جو دین پیش فرمایا ہے یہ شروع دنیا سے ہی چلا آرہا تھا یعنی بنیادی طور پر تھوڑا بھی فرق نہیں ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ نے جو دعوت پیش فرمائی اس میں کوئی نئی بات نہ تھی اس سلسلہ میں قرآن اپنی گواہی یوں پیش کرتا ہے۔اس نے تم پرکتاب نازل کی جوحق لے کر آئی ہے اور ان کتابوں کی تصدیق کررہی ہے جو پہلے سے آئی ہوئی ہیں۔اس سے پہلے وہ انسانوں کی ہدایت کیلئے تورات و انجیل نازل کرچکا ‘‘ (آل عمران آیت 3)

غرض کہ نمونہ بندگی کی یہ آخری کڑی رکھ دی گئی اور دنیا کو یہ بتا دیا گیا کہ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

اللہ تعالیٰ سورہ توبہ میں محمد عربی خاتم الانبیاء ﷺ کو نبی بناکر مبعوث فرمائے جانے اور آپ ﷺ کے حقیقی مشن کی طرف نشاندہی فرما رہے ہیں،ارشاد باری تعالیٰ یوں ہوا: ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے، تا کہ اسے پورے جنس دین پر غالب کرے‘‘۔

اور اسی طرح تھوڑے فرق کے ساتھ (سورہ صف ) میں بھی یہی بات ارشاد فرمائی کہ ’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کردے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو (ترجمانی مولانا مودودیؒ)

مذکورہ بالا دونوں آیات پر غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوچکی کہ نبی محترم سرکار عالم ﷺ کو عرب کی سرزمین سے اس لئے اٹھایا گیاہے کہ دین اسلام کو تمام باطل ادیان پرغالب کردے چاہے مشرکین کو یہ بات کتنا ہی ناخوش کردے۔

گذشتہ انبیاء علیہ السلام کو جو دین دیکر بھیجا گیا تھا ان انبیاء کی متعلقہ امتوں نے اپنے انبیاء کے وصال کر جانے کے بعد دین میں بگاڑ پیدا کرلیا اور یہاں تک کہ اپنے انبیاء پر اتاری گئی مقدس کتابوں کی تعلیمات میں الٹ پھیر کرتے ہوئے کمی و زیادتی کر بیٹھے یعنی مفاد دنیا کی خاطر اس میں تحریف کرچکے،ان لوگوں کو پھر وہی اصلی تعلیمات کی طرف دعوت دینا نبی ﷺ کی بعثت کا عظیم مقصد ہے اور نبی کریم ﷺ کی ولادت با سعادت پھر اس کے بعد نبوت کا تاج آپ ﷺ پر رکھنے کا دوسرا منشا یہ ہے کہ عرب کی ان سرکش قوم کو جو بت پرستی میں مبتلا ہوچکی تھی اور اللہ کی ذات،صفات، اختیارات اور ا س کے حقوق میں اپنے ہی ہاتھوں بنائے گئے بتوں کو دخیل و شریک سمجھ بیٹھی تھی، ان کو واحد لا شریک کی طرف بلانا تا کہ دنیا میں اللہ کی مرضی کے مطابق عمل ہونے لگے اور زمین پر معبود ان باطل کی جھوٹی بندگی ختم ہو،خدا کی زمین پر خدا کے احکام نافذ ہوجائیں اور سارے کے سارے انسان ایک خدا کی بندگی اختیار کرنے لگیں کیونکہ بندگی کے لائق ذات صرف اور صرف اللہ رب العزت ہی کی ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ ادیان باطل پر دین رحمت و دین فطرت غالب ہوکر رہے۔

یہاں پر یہ بات قابل غور و فکر کی یہ ہے کہ غلبہ دین کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ مراسم عبودیت میں کچھ تبدیلی آجائے یا بت پرستی چھوڑ کر اسلامی طرز کی عبادات ؛نماز پڑھی جانے لگے بلکہ دین حق کے غالب ہوجانے کا وسیع معنی و مفہوم یہ ہے کہ انسان کی پوری زندگی کے شب و روز اللہ تبارک تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے تابع ہوجائیں یعنی ان تمام امور میں اللہ کو مقتدر اعلیٰ تسلیم کیا جائے اوراس کے حکم اور منشا کے عین مطابق دنیا میں عطا و منع کے فیصلے ہوں۔ اسی کی خاطر اللہ رب العالمین نے اپنے محبوب بندے حضرت محمد ﷺ کو رحمت للعالمین بناکر مبعوث فرما دیا اور آپ پر جو کتاب اتاری ہے وہ انسانوں کیلئے دستور حیات بنادی اور رسول اللہ ﷺ کے ارشادات گرامی اور آپ کے اقوال و اعمال یہ سب کے سب قرآن حکیم کے تشریحات و توضیحات اورمکمل تفسیر ہے جو ہر انسان کی دنیا و آخرت کو بنانے اور سنوارنے کیلئے انتہائی ضروری ہے اور اس سے فراری اختیار کرکے کوئی شخص کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ مالک کائنات نے خود یہ بات ارشاد فرمادی ’’ میرے رسول جو کچھ تمہیں عطا کریں لے لو اور جس چیز سے منع فرما دیں رک جائو“۔

نبی پاک ﷺ کے چند دعوتی پہلو پر بھی ہماری نگاہ ہونی چاہیے

نبی کریم ﷺ نے اپنی رسالت کے اعلان کے بعد توحید باری تعالیٰ کی دعوت پیش فرمائی آپ ﷺ کی دعوت کیا تھی؟یہی کہ اے لوگو تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ٫ تم کامیاب ہوجائو گے پھر آگے مزید یہ بات بھی ارشاد فرمائی کہ اے لوگو تم جن جن کو اپنی حاجت پوری کرنے؛ پوجتے ہو،وہ نہ تو تمہیں کچھ نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی نقصان،پھر تم کیوں ان کے آگے اپنے مراسم عبودیت ادا کرتے ہو؟ میں یہ بات تم کو اپنی طرف سے نہیں بتا رہا ہوں بلکہ یہ میرے رب کریم مولیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہدایات ہیں میں اللہ کا رسول ہوں اور مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی اتر تی ہے۔

لہٰذ تمہیں چاہئے کہ مجھ پر ایمان لے آئو اور ان تمام مشرکانہ عقائد و اعمال کو چھوڑ دو جو تم لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے صرف اور صرف اسی کی غلامی اختیار کرو جو واحد لا شریک ہے جس نے مجھے دین حق دے کر اپنا رسول بناکر بھیجا ہے، جو حقیقت میں میرا اور تمہارا اور سارے جہاں کا رب ہے۔ الغرض آقائے نامدار ﷺ کی تعلیمات کا اصل یہی ہے کہ صرف اللہ ہی معبود برحق ہے جو سب کا خالق ہے پروردگار مدبر و مالک ہے، لہٰذا پرستش کا مستحق اور حقیقی مطاع صرف وہی ہستی ہے ان میں سے کسی حیثیت میں بھی اس کا کوئی بھی شریک و حصہ دار نہیں ہے۔

نبی محترم ﷺ اپنی حیات طیبہ میں کبھی بھی دعوتی جدوجہد کو نہیں چھوڑا اور اپنی پوری حیات مطہرہ کو اسی کام میں لگایا اور اس راہ میں آپ ﷺ نے بڑی بڑی مصیبتیں برداشت کیں اور تکالیف اٹھاتے، مگر ایک لمحہ کیلئے بھی اس کام سے کبھی دستبردار نہیں ہوتے۔

مشرکین مکہ کی ناکام و مکروہ حکمت عملی بھی دیکھیے۔۔۔

نبی کریم ﷺ کی دعوت کو پھیلتا پھولتا دیکھ کر سرداران قریش نے ایک مکروہ حکمت عملی اختیار کی چنانچہ نبی کریم ﷺ جو حقیقت میں انسانوں کو ایمان کی دولت،حسن اخلاق کی دولت، امن و سلامتی کے خزانے اور جنت کی کنجیاں عطا کررہے تھے لیکن یہ عقل کے اندھے مشرکین مکہ و سرداران قریش آپ ﷺ کی قدر نہ جانی بلکہ آپ ﷺ کو کچھ مال و دولت کی لالچ بتا کر دعوت حق سے دستبردار کروانا چاہتے تھے۔ یک دفعہ کا واقعہ ہے کہ قریش کے کچھ سردار مسجد حرام میں محفل جمائے بیٹھے تھے اور اسی مسجد کے ایک گوشہ میں سرکار دو عالم ﷺ بھی تشریف فرما تھے۔

قارئین کرام یہاں پر یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب تحریک اسلامی مختلف ادوار سے گذر کر اور مشکلات سے دو چار ہوکر آگے بڑھ رہی تھی اور اسی زمانے میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی نبی کریم ﷺ کے دست حق پرست پر ایمان لاچکے، اس طرح دعوت حق کے آگے بڑھتے قدم کو دیکھ کر دشمنان اسلام خائف سے ہوچکے تھے، ان سرداران قریش کو یہ فکر دامن گیر ہوچکی تھی کہ فرزندان توحید کا قافلہ دن بدن اسی طرح آگے بڑھتا چلاگیا تو ہماری تمام اجارہ داریاں اور سرداریاں خاک میں مل جائیںگے،چنانچہ ان لوگوں نے ایک ترکیب یہ کی کہ عتبہ بن ربیع جو ابو سفیان کے خسر تھے انہیں اپنا نمائندہ بناکر آپ ﷺ کے پاس بھیجا (اس خام خیالی کے ساتھ کہ نبی ﷺ کو کچھ لالچ بتاکر دعوت دین سے دستبردار کر والیں گے ) چنانچہ اپنی محفل میں طے شدہ پروگرام کے مطابق عتبہ بن ربیعہ نے آپ ﷺ کے پاس جاکر چند پیش کش رکھا۔

۱۔ اے محمد ﷺ اگر تم اس دعوت کے ذریعہ سے دولت کماکر مالدار بننا چاہتے ہو تو ہم سب مل کر تم کو اتنی دولت دیتے ہیں کہ تم عرب میں سب سے زیادہ مال دار ہوجائو گے۔

۲۔ تمہارا مقصد یہ ہو کہ تم اس کے ذریعہ بڑا بننا چاہتے ہوتو ہم تمہیں اپنا سردار بنا لیتے ہیں۔

۳۔ اگر تم حسین عورت چاہتے ہو تو ہم دنیا کی سب سے زیادہ حسین عورت تمہاری خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

مذکورہ تمام باتوں کو آپ ﷺ بڑے اطمینان کے ساتھ سماعت فرمایا اور اس کے بعد آپ ﷺ نے تعوذ و تسمیہ کے ساتھ سورہ حم سجدہ کی تلاوت شروع فرمائی یہاں تک کہ آپ ﷺ سجدہ والی آیت تک پہنچ چکے اور اللہ رب العزت کے حضور سجدہ فرمایا، اس کے بعد اپنا سر مبارک اٹھاکر ارشاد فرمایا کہ تمہاری ان سب باتوں کا یہی جواب ہے، یعنی میں اپنے رب کی بندگی اور نبوی ذمہ داری کے سامنے تمہاری کسی بات کو رتی برابر اہمیت نہیں دیتا۔
٭٭٭