مولانا آزاد یونیورسٹی میں دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس، خانقاہِ دکن کی عالمی و سماجی خدمات پر مقالہ پیش
ڈاکٹرسید تنویر عالم درگاہ حضرت سید شاہ موسیٰ قادریؒ کے موجودہ سجادہ نشین حضرت مولانا سید شاہ محمد فضل اللہ قادری الموسوی المعروف مرشد پاشاہ کے فرزندِ سوم ہیں۔ 1422ھ/2001ء میں انہوں نے کنز شاہ محی الدین ثانیؒ اپنی دستِ تحریر سے مرتب کی، جو بعد ازاں 1444ھ/2022ء میں کمپیوٹر کتابت کے ساتھ دوبارہ شائع ہوئی۔
دو روزہ انٹرنیشنل کانفرنس مولانا ازاد یونیورسٹی میں خانقاہ دکن اور ان کی عالمی و سماجی خدمت پر مولانا ڈاکٹر پیر سید شاہ تنویر عالم قادری الموسوی الجیلانی شیخ الحلقہ بارگاہ مسویہ نے اپنا مقالہ پیش کیا ۔
خاکِ دکن کا خمیر ابتدا ہی سے علم و فضل، زہد و تقویٰ اور حکمت و عرفان کے انوار سے آراستہ رہا ہے۔ اس خطے کی روح میں روحانیت، اخلاق اور انسان دوستی رچی بسی ہے۔ تاریخِ دکن کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کی سرزمین ہمیشہ علومِ ظاہری و باطنی کا گہوارہ رہی، اور اسی کی آغوش میں بے تاج بادشاہ، علم و معرفت کے سالار اور روحانیت کے آفتاب پروان چڑھتے رہے۔
انہی اجلہ اولیا و صلحائے دکن میں حضرت سیدنا شاہ موسیٰ قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ گرامی نہایت معتبر، بافیض اور بلند مرتبہ حیثیت رکھتی ہے۔ان کی خانقاہ دکن کی قدیم ترین اور سب سے زیادہ فیض رساں خانقاہوں میں شمار ہوتی ہے، جہاں سینکڑوں سالوں تک اہلِ دل، طالبانِ حق اور اہلِ وجد و حال تربیت پاتے رہے۔ آپ کا شجرۂ نسب اکیس واسطوں سے حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ تک پہنچتا ہے، جو آپ کی روحانی عظمت اور سلسلۂ قادریہ کے جلیل القدر فیضان کی روشن دلیل ہے
۔حضرت سید شاہ موسیٰ قادری کی ولادت 1152 ہجری میں ہوئی۔ آپ نے بیعت و خلافت اپنے والد بزرگوار حضرت سید شاہ محی الدین قادری المعروف قادر پاشاہؒ سے حاصل کی جن کی علمی، روحانی اور اصلاحی خدمات بے مثال تھیں۔ ’’مشکوٰۃ النبوۃ‘‘ کے مصنف حضرت سید شاہ غلام علی قادری الموسوی لکھتے ہیں کہ حضرت سید شاہ موسیٰ قادری صرف 19 برس کی عمر میں، 21 ذی الحجہ 1171 ہجری کو مسندِ سجادگی پر فروکش ہوئے اور اسی کم سنی میں روحانیت کے بلند ترین مراتب پر فائز نظر آئے۔آپ نے عمرِ مبارک کے 63 برس تک دن رات اوراد و وظائف کے ساتھ ساتھ روحانی تربیت، اصلاحِ معاشرہ، فلاحی خدمات، سماجی روابط اور خانقاہی سرگرمیوں میں خود کو پوری دل جمعی سے مشغول رکھا۔ فقہ و عقائد کی علمی و عملی کتابیں آپ کے زیرِ مطالعہ رہتیں، جس سے آپ کی فقاہت، بصیرت اور دینی شعور کا اندازہ ہوتا ہے
۔1184 ہجری (19 اکتوبر 1829ء) میں حیدرآباد دکن کی مشہور رودِ موسیٰ میں شدید طغیانی آئی جس سے سلطنت کے عام عوام ہی نہیں بلکہ امرا اور خاصانِ سلطنت بھی سخت پریشان ہو گئے۔ اس آزمائش کی گھڑی میں بلا تفریقِ مذہب و ملت، ہندو اور مسلمان تین ماہ تک آپ کی خانقاہ میں پناہ گزین رہے۔ روایت ہے کہ حضرت شاہ موسیٰ قادریؒ نے اپنے مبارک عصا کے اشارے سے طغیانی کے زور کو ٹھنڈا کیا، اور اپ نے ارشاد فرمایا تو موسی ہے اور میں موسی ہوں ۔اسی وقت اللہ کے حکم سے بگڑی ہوئی لہریں سکون پذیر ہو گئیں۔ خلقِ خدا نے اس روحانی معجزے کو دیکھا اور آپ کی ولایت، بزرگی اور حقانیت پر ان کے دلوں میں یقین راسخ ہوگیا۔
حضرت سیدنا شاہ موسیٰ قادریؒ کی شخصیت دکن کی روحانی تاریخ کا وہ روشن چراغ ہے جس کی روشنی آج بھی دلوں کو منور کرتی ہے۔ ان کی خانقاہ علم، محبت، امن اور انسانیت کا مرکز رہی ہے اور آج بھی ان کا فیضان اہلِ دل کی راہنمائی کرتا ہے۔ ان کی زندگی اولیائے دکن کی عظیم روایت کا حسین تسلسل ہے، جس نے اس خطے کے علمی و روحانی منظرنامے پر گہرا نقش چھوڑا۔
حضرت سید شاہ غلام علی قادری (رح)کی دیگر قابلِ مطالعہ و قابلِ تذکرہ تصانیف میں مسائلِ صوفیہ، لطائف اللطیف، انتخاب المورخین، لوامع فی لوائح، خمسہ قادریہ، مشاغلِ قادریہ، کفایت الفضائل، رسالہ علمِ تجوید اور خلاصہ علمِ فقہ شامل ہیں۔آپ کی تصانیف میں سب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت جس کتاب کو حاصل ہوئی وہ آپ کی شاہکار تصنیف مشکوٰۃ النبوۃ ہے۔ اس کتاب میں آپ نے صوفیہ کرام کا ایک عظیم انسائیکلوپیڈیا مرتب کیا، جو 100 سے زائد مطبوعہ و غیر مطبوعہ مخطوطات کے مطالعے پر مبنی ہے۔
اس میں 600 سے زائد صوفیہ کے حالات، مقامات اور ملفوظات کو فصاحت و بلاغت کے ساتھ فارسی میں تحریر کیا گیا ہے۔ کتاب میں مجموعی طور پر 33 ’’مشکوٰۃ‘‘ شامل ہیں جو ابواب کے قائم مقام ہیں۔مشکوٰۃ النبوۃ کا اردو ترجمہ مولانا سید ابوالفضل محمود قادری نے آٹھ جلدوں میں کیا ہے، جس میں دکن اور اطرافِ دکن کے کئی بزرگوں کے حالات بھی شامل ہیں۔ موجودہ سجادہ نشین وہ متولی مولانا سید شاہ محمد فضل اللہ قادری الموسوی صاحب قبلہ کے پاس اج بھی خلمی نسخہ موجود ہے
اور ایک نسخہ اسٹیٹ لائبریری اور عثمان یونیورسٹی کی لائبریری میں موجود ہے ۔راقم مقالہ سیدشاہ تنویر عالم قادری کے جدِّ امجد حضرت سید شاہ یحییٰ عالم قادری الموسوی القمیصی، حضرت سید شاہ عبدالحئی قادری القمیصی کے فرزند تھے۔ وہ پانچویں پشت میں حضرت سید شاہ موسیٰ قادریؒ کے نبیرہ اور شیخ المشائخ حضرت سید شاہ محمد فضل اللہ قادری الموسوی کے سلسلے کے وارث رہے، جنہوں نے اپنے اسلاف کی خانقاہی، علمی اور روحانی روایتوں کو دوام بخشا۔
حضرت سید شاہ یحییٰ عالم قادری الموسویؒ نے اپنے بزرگوں کی روایت برقرار رکھتے ہوئے خانقاہی نظام کی پاسداری کی، علم و ادب اور شعرو سخن کو فروغ دیا اور اردو کے ساتھ فارسی میں بھی کلام کہا۔ ان کا اردو و فارسی کلام ان کے پوتے، ڈاکٹر پیر سید شاہ تنویر عالم قادری الموسوی ابن سجادہ نشین و متولی حضرت مولانا سید شاہ محمد فضل اللہ قادری الموسوی نے 2008ء میں مدینہ منورہ میں کلامِ سردارؔ کے عنوان سے مرتب و شائع کیا۔
ڈاکٹرسید تنویر عالم درگاہ حضرت سید شاہ موسیٰ قادریؒ کے موجودہ سجادہ نشین حضرت مولانا سید شاہ محمد فضل اللہ قادری الموسوی المعروف مرشد پاشاہ کے فرزندِ سوم ہیں۔ 1422ھ/2001ء میں انہوں نے کنز شاہ محی الدین ثانیؒ اپنی دستِ تحریر سے مرتب کی، جو بعد ازاں 1444ھ/2022ء میں کمپیوٹر کتابت کے ساتھ دوبارہ شائع ہوئی۔
اسی طرح 2003ء میں سلسلۂ عالیہ قادریہ الموسویہ کا شجرۂ طریقت بھی مرتب و شائع کیا۔اپریل 2020ء میں سید تنویر عالم نے بارگاہِ حضرت سید موسیٰ قادری میں مدفون متعلقین و صالحین کے تفصیلی تعارف پر مشتمل 346 صفحات پر ایک تحقیقی مقالہ بھی مرتب کیا، جو ایک مستند عالم و محقق کی نگرانی میں تیار ہوا۔
دو روزہ قومی سیمینار ’’خانقاہِ دکن اور ان کی علمی و سماجی خدمات‘‘ میں سید تنویر عالم قادری الموسوی الجیلانی—شیخ الحلقہ بارگاہِ موسویہ—نے اپنا مقالہ دوسرے دن کے پہلے سیشن میں پیش کیا۔ یہ سیمینار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (مانو)، حیدرآباد میں منعقد ہوا۔
سیمینار کے پہلے روز کی نگرانی پروفیسر سید علی اشرف جائز صاحب نے کی، جس میں دکن کی متعدد خانقاہوں سے وابستہ سجادہ نشینوں اور اسکالرز نے اپنے تحقیقی مقالات پیش کیے۔ اجلاس لائبریری آڈیٹوریم میں منعقد ہوا اور اس کی صدارت تقدس مآب حضرت مولانا پیر سید شاہ محمد فضل اللہ قادری الموسوی الجیلانی اور پروفیسر رفیع اللہ اعظمی نے فرمائی۔یہ سیمینار دکن کی خانقاہی روایت، علمی ورثے اور صوفیانہ خدمات کے احیا اور تحقیق کا ایک نمایاں سنگِ میل ثابت ہوا، جس نے دکن کی روحانی و علمی تاریخ کے کئی روشن پہلو اہلِ علم کے سامنے آشکار کیے۔