فضائل و اعمال: ماہِ شعبان المعظم
اللہ تعالیٰ کی رحمت و بخشش کے دروازے یوں تو ہر وقت ہر کسی کے لئے کُھلے رہتے ہیں۔ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰه (اللہ کی رحمت سے نا اُمید مت ہو) کی فضائوں میں رحمت الٰہی کا دریا ہمہ وقت موجزن رہتا ہے۔
مولانا حافظ محمد آصف عرفان قادری
(ایڈیٹر ماہنامہ عرفان انوار)
اللہ تعالیٰ کی رحمت و بخشش کے دروازے یوں تو ہر وقت ہر کسی کے لئے کُھلے رہتے ہیں۔ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰه (اللہ کی رحمت سے نا اُمید مت ہو) کی فضائوں میں رحمت الٰہی کا دریا ہمہ وقت موجزن رہتا ہے۔ اس کی رحمت کا سائبان ہر وقت اپنے بندوں پر سایہ فگن رہتا ہے اور مخلوق کو اپنے سایہ عاطفت میں لئے رکھنا اسی ذات کی شانِ کریمانہ ہے۔ اس غفّار، رحمن و رحیم رب العالمین نے اپنی اس ناتواں مخلوق پر مزید کرم فرمانے اور اپنے گناہ گار بندوں کی لغزشوں اور خطاؤں کی بخشش و مغفرت اور مقربین بارگاہ کو اپنے انعامات سے مزید نوازنے کے لئے بعض نسبتوں کی وجہ سے کچھ ساعتوں کو خصوصی برکت و فضیلت عطاء فرمائی جن میں اس کی رحمت و مغفرت اور عطاوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے اور جنہیں وہ خاص قبولیت کے شرف سے نوازتا ہے۔
ان خاص لمحوں، خاص ایام اور خاص مہینوں میں جن کو یہ فضیلت حاصل ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی برسات معمول سے بڑھ جاتی ہے۔ ان خصوصی ساعتوں میں ماہِ شعبان کو خاص اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سال کے مہینوں میں سے چار مہینے رجب، شعبان، رمضان اور محرم کو برگزیدہ فرمائے۔ ان میں سے شعبان کو چُن لیا اور اسے رسول کریم ﷺ کا مہینہ قرار دیا۔
لہٰذا شعبان وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں تمام بھلائیوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ آسمان سے برکتیں اُتاری جاتی ہیں، گناہ گار بخشش پاتے ہیں اور برائیاں مٹادی جاتی ہیں۔ اسی لئے شعبان کو ’اَلْمُکَفِّر‘ یعنی گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بننے والا مہینہ کہا جاتا ہے۔ شعبان المعظم ہجری سال کا آٹھواں مہینہ ہے، حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے اپنی کتاب ’’ماثبت بالسنۃ‘‘ میں حضرت انس بن مالکؓ کے حوالہ سے یہ بیان فرمایا ہے کہ روزہ دار کی نیکیوں (کے ثواب) میں درخت کی شاخوں کی طرح اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ شعبان کے مہینے میں بہت سی نیکیاں تقسیم کی جاتی ہیں، جیسے رمضان کے مہینے میں گناہ جلا دیئے جاتے ہیں، اس وجہ سے اس کو شعبان کہتے ہیں۔
ماہِ شعبان ایک بابرکت مہینہ ہے، ”شعبان“ عربی زبان کے لفظ ”شَعّْبْ“ سے بنا ہے، جس کے معنی پھیلنے کے آتے ہیں اور چوں کہ اس مہینے میں رمضان المبارک کے لئے خوب بھلائی پھیلتی ہے اسی وجہ سے اس مہینے کا نام ”شعبان“ رکھا گیا۔ (عمدة القاری، باب صوم شعبان۱۱/۱۱۶، فیض القدیر: ۲/۳) حضرت الشیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ ﷲ فرماتے ہیں: لفظ شعبان پانچ حرفوں کا مجموعہ ہے: (ش، ع، ب، الف اور ن) ’شین‘ شرف سے، ’عین‘ علو، عظمت (بلندی) سے، ’باء‘ بِر (نیکی اور تقویٰ) سے، ’الف‘ اُلفت (اور محبت) سے اور ’نون‘ نور سے ماخوذ ہے۔ اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کو یہ چار چیزیں عطا ہوتی ہیں۔
یہ وہ مہینہ ہے جس میں نیکیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور برکات کا نزول ہوتا ہے، گناہ گار چھوڑ دیئے جاتے ہیں اور برائیاں مٹادی جاتی ہیں اور مخلوق میں سب سے افضل اور بہترین ہستی رسول کریم ﷺ کی بارگاہ بے کس پناہ میں کثرت سے ہدیہ درود و سلام بھیجا جاتا ہے۔” (غُنیتہ الطالیبین)، حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ جب ماہِ رجب کا آغاز ہوتا تو رسول کریم ﷺ دعا کرتے: اے الله! ہمیں رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان نصیب فرما۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، ۴: ۱۸۹۔ الرقم: ۳۹۳۹، والبيهقي في شعب الايمان، ۳/۳۷۵، الرقم: ۳۸۱۵) اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں (نفلی) روزے نہیں رکھتے تھے۔ آپ ﷺ شعبان کا سارا مہینہ روزے رکھتے تھے (البخاري في الصحيح، كتاب الصوم، باب صوم شعبان، ۶۹۵: ۲، الرقم: ۱۸۶۹، ومسلم في الصحيح، كتاب الصيام، باب صيام النبي ﷺ رمضان واستحباب أن لا يخلي شهر عن صوم، ۲: ۸۱۱، الرقم: ۱۱۵۶، وأحمد بن حنبل في المسند، ۶: ۱۴۳، الرقم: ۲۵۱۴۴، والنسائي في السنن، كتاب الصيام، باب ذكر اختلاف ألفاظ الناقلين لخبر عائشة فيه، ۴: ۱۵۱، الرقم: ۲۱۷۹،۲۱۸۰، و ابن ماجه في السنن، كتاب الصيام، باب ما جاء في صيام النبي ﷺ، ۱: ۵۴۵، الرقم: ۱۷۱۰)
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو تمام مہینوں میں سے شعبان کے روزے رکھنا زیادہ محبوب تھا۔ آپ ﷺ شعبان کے روزوں کو رمضان المبارک سے ملا دیا کرتے تھے۔ (أحمد في المسند، ۶: ۱۸۸، الرقم: ۲۵۵۸۹، وأبو داود في السنن، كتاب الصوم، باب في صوم شعبان، ۲: ۳۲۳، الرقم: ۲۴۳۱، والنسائي في السنن، كتاب الصيام، باب صوم النبي ﷺ، ۴: ۱۹۹، الرقم: ۲۳۵۰) حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے صحابہ سے بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ شعبان کا پورا مہینہ ہی روزے رکھتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول الله! تمام مہینوں سے زیادہ آپ کو شعبان میں روزے رکھنا زیادہ پسند ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یقینا الله تعالیٰ اس سال میں ہر ایک مرنے والے کی موت کو (اسی مہینہ میں) لکھتا ہے۔ لہٰذا میں پسند کرتا ہوں کہ حالتِ روزہ میں میرا وصال نامہ لکھا جائے۔ (أبو يعلى في المسند، ۸: ۳۱۱، الرقم: ۴۹۱۱، و ذكره المنذري في الترغيب و الترهيب، ۲: ۷۲، الرقم: ۱۵۴۰، والهيثمي في مجمع الزوائد، ۳: ۱۹۲) آیت درود و سلام کا نزول:امام قسطلانیؒ نے "المواہب اللدنیہ” میں ایک لطیف بات کہی ہے۔
فرماتے ہیں: إِنَّ شَهْرَ شَعْبَان شَهْرُ الصَّلَاةِ عَلٰی رَسُوْل ﷲِ ﷺ، لِاَنَّ آيَةَ الصَّلَاةِ يَعْنِي: اِنَّ اﷲَ وَمَلٰئِکَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ. (سورۃ الاحزاب، آیت: ۵۶) نَزَلَتْ فِيْهِ. ’’بے شک شعبان رسول کریم ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا مہینہ بھی ہے، اس لئے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں درود و سلام کی آیت نازل ہوئی۔‘‘ (قسطلانی، المواهب اللدنية، ۲/۶۵۰) یہ آیت ماہِ شعبان میں نازل ہوئی تو شعبان کا تعلق رسول کریم ﷺ کے درود و سلام کے ساتھ بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بخشش و مغفرت اور توبہ کے ساتھ بھی ہے لہٰذا اس ماہ اور شب برات کی عبادت سے رسول کریم ﷺ کی بارگاہ سے بھی قربت نصیب ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی قرب نصیب ہوتا ہے۔
رسول کریم ﷺ نے شعبان کو اپنا مہینہ قرار دیا اور اس ماہ کی حرمت و تعظیم کو اپنی حرمت و تعظیم قرار دیا۔ آپ ﷺ اس ماہ میں کثرت سے روزے رکھتے اور دیگر اَعمال صالحہ بجا لاتے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ماہِ رجب ﷲ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور ماہِ شعبان میرا مہینہ ہے، شعبان (گناہوں سے) پاک کرنے والا ہے اور میری امت کا مہینہ رمضان (گناہوں کو) ختم کر دینے والا مہینہ ہے۔‘‘ (کنزالعمال، ۸/۲۱۷، رقم: ۲۳۶۸۵) رسول کریم ﷺ سے افضل روزوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: صَوْمُ شَعْبَانَ تَعْظِيْمًا لِرَمَضَانَ. ’’شعبان کے روزے رمضان کی تعظیم و قدر کے لئے ہیں۔‘‘ (بيهقی، السنن الکبری، ۴/۳۰۵ الرقم: ۸۳۰۰)
ماہِ شعبان کی اہمیت و فضیلت کا اس امر سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس مہینے میں بندوں کے اَعمال ﷲ تعالیٰ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں۔ حضرت اُسامہ بن زیدؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! میں آپ کو سب مہینوں سے زیادہ شعبان المعظم کے مہینے میں روزے رکھتے دیکھتا ہوں۔ (اس کی کیا وجہ ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: یہ وہ مہینہ ہے جس سے لوگ غافل اور سست ہیں۔ رجب اور رمضان المبارک کے درمیان یہ وہ مہینہ ہے جس میں اعمال رب تعالیٰ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں۔ لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال اس حال میں اُٹھائے جائیں کہ میں روزہ سے ہوں۔‘‘ (نسائی، السنن، کتاب الصيام، ۴/۲۰۱، رقم: ۲۳۵۷)
قارئین کرام! رسول کریم ﷺ کا محبوب مہینہ شعبان المعظم ہے جو عظمت و برکات والا ہے، ہم اس کو شعبان المعظم اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں ایک رات ایسی بھی ہے جو بڑی برکت والی ہے جسے شب برآت کہا جاتا ہے اس کے بارے میں الله رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍاس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام-” (سورۃ الدخان۔ آیت: ۴) صاحبِ تفسیر روح البیان اس آیتِ مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں: الله تعالیٰ اس رات میں روزی و رزق کا پروگرام حضرت میکائیل علیہ السلام کے سپرد فرما دیتا ہے اور اعمال و افعال کا پروگرام آسمان اول کے فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے حوالے کر دیا جاتا ہے- مصائب و آلام کا پروگرام حضرت عزرائیل علیہ السلام کے سپرد کیا جاتا ہے- (روح البیان، جلد۔ ۳، ص: ۵۹۸) ایک روایت میں ہے کہ رسول کریم ﷺ سے عرض کیا گیا! ماہ شعبان المعظم میں آپ کے روزہ رہنے کی کیا وجہ ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ماہ شعبان سے شعبان تک مرنے والوں کی اجل لکھی جاتی ہے تو میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ جب میری اجل لکھی جائے تو میں روزے دار ہوں- (الترغیب و الترہیب۔ ص: ۲۰۹) ماہ شعبان المعظم چونکہ یہ رمضان کامقدمہ ہے، اس لئے اس میں رمضان کے استقبال کے لئے تیاری کی جاتی ہے۔
خود رسول کریم ﷺ نے اس مہینہ میں رمضان کی تیاری کی ترغیب دی ہے۔ حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ فَقَالَ: يا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيمٌ مُبَارَكٌ0 رسول کریم ﷺ نے ہمیں شعبان کے مہینہ کی آخری تاریخ میں خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظمت و برکت والا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ پھر آپ ﷺ نےشبِ قدر، تراویح، مغفرت باری تعالیٰ اور رمضان میں اہتمام سے کئے جانے والے خصوصی اعمال کا تذکرہ فرمایا۔ (صحیح ابن خزیمہ) قارئین کرام! شعبان المعظم وہ مبارک مہینہ ہے جس میں آپ ﷺ کی دیرینہ تمنا پوری ہوئی اور تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا، آیت درود و سلام اسی مہینے میں نازل ہوئی، تیمم سے متعلق احکام کا نزول اسی مہینہ میں ہوا، تاریخ اسلام کا عظیم غزوہ "غزوہ بنو المصطلق” اسی ماہ میں پیش آیا، اسی مہینے میں آپ ﷺ نے حضرت سیدنا حفصہؓ اور حضرت سیدنا جوریہؓ سے نکاح فرمایا۔
اسلامی سال کے اعتبار سے یہ مہینہ مہتمم بالشان اور رمضان مبارک کے لئے پیش خیمہ ہوتا ہے اس مہینے میں رمضان مبارک کے استقبال، اس کے سایہ فگن ہونے سے قبل ہی اس کی مکمل تیاری اور مختلف ضروری امور سے یکسوئی کا بھر پور موقع ملتا ہے، اسلاف کرام کا تو عمل ایسا تھا کہ حضرت سلمہ بن کہیلؓ فرماتے ہیں: کہا جاتا تھا کہ شعبان قرآن مجید کی تلاوت کرنے والوں کا مہینہ ہے۔ (ابن رجب الحنبلي في لطائف المعارف، ص: ۲۵۸) حضرت حبیب بن ابی ثابتؓ شعبان کے آنے پر کہتے تھے کہ یہ قرآن مجید کے قاریوں کا مہینہ ہے۔ (ابن رجب الحنبلي في لطائف المعارف، ص: ۲۵۹)
عمرو بن قیس المُلَائی شعبان کے آنے پر اپنی دکان کو تالا لگا دیتے اور شعبان اور رمضان میں تلاوتِ قرآن کے لئے خود کو مکمل طور پر فارغ کر دیتے۔ (ذكره ابن الجوزي في التبصرة، ۲: ۴۷، وابن رجب الحنبلي في لطائف المعارف، ص: ۲۵۹) حضرت حسن بن سہلؓ فرماتے ہیں کہ شعبان کہتا ہے: اے میرے اللہ! آپ نے مجھے دو عظیم مہینوں کے درمیان رکھا ہے تو میرے لئے کیا چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے تیرے اندر قرآن حکیم کی تلاوت رکھی ہے۔ (ذكره ابن الجوزي في التبصرة، ۲: ۴۷، وابن رجب الحنبلي في لطائف المعارف، ص: ۲۵۹) رسول کریم ﷺ نے اس ماہ کی فضیلت کا ایک راز یہ بتا دیا کہ شعبان میں ہمارے اعمال ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں۔ جو شخص اس مہینے میں جتنے زیادہ اعمال صالحہ بجا لاتا ہے، زیادہ عبادات کرتا ہے، روزے رکھتا ہے، صدقات و خیرات کرتا ہے۔
اسے اتنی ہی ﷲ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت نصیب ہوتی ہے اور اسی قدر بارگاہِ الٰہی سے قرب اور مقبولیت نصیب ہوتی ہے۔ قارئین کرام! سال کے بارہ مہینوں میں سے رمضان تو ایسا مہینہ تھا جس کے روزے فرض تھے، آپ ﷺ پورا کا پورا مہینہ روزے رکھتے لیکن بقیہ گیارہ مہینوں میں سب سے زیادہ روزوں کا اہتمام آپ ﷺ شعبان میں فرماتے تھے۔ آخر کار کوئی سبب اور وجہ تو ہوگی اور کوئی تو خیر اور برکت کا پہلو ایسا ہوگا جو ماہِ شعبان کو ایسی فضیلت و بزرگی عطا کی گئی۔ اس مہینے کی فضیلت کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ اسی ماہِ مبارک میں وہ مبارک رات بھی آتی ہے جسے ’’شب برات‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھے کہا: یا رسول اللہ ﷺ! یہ رات، پندرھویں شعبان کی رات ہے اور اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد فرماتا ہے۔‘‘ (بيهقی، شعب الايمان، ۳۸۳۷)
قارئین کرام! جب انسان گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے تو بُرے اعمال کے باعث اس کے دل کے اندر نیک اعمال و عبادات سے عدم دلچسپی جنم لیتی ہے۔ اگر بندہ اپنی اصلاح نہ کرے تو عبادات سے یہ محرومی بڑھتے بڑھتے توفیق کے سلب کئے جانے پر منتج ہوتی ہے۔ اس مقام پر اس کا قلب گناہوں کے اصرار کے باعث حلاوت ایمان سے محروم ہوکر تاریک و سیاہ ہو جاتا ہے جو دائمی بد بختی کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق سے بے پناہ محبت ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ اس کے بندے نار جہنم کا ایندھن بنیں۔ چنانچہ ذاتِ حق تعالیٰ نے انہیں اس انجام بد سے بچانے کے لئے اپنی مغفرت و بخشش کو عام کرتے ہوئے توبہ کا دروازہ کھولنے کا اعلان کیا کہ جو کوئی توبہ کی راہ کو اختیار کرے گا تو وہ اسے ایسے معاف کرے گا گویا اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں بلکہ اس کو درجہ محبوبیت میں رکھے گا۔
اس لئے ہمیں چاہیے کہ جو وقت اللہ تعالیٰ کی رحمتیں توجہ کا خاص موقع ہوتا ہے اس وقت اپنے کو اللہ تعالیٰ سے رجوع کرکے توبہ و استغفار کرلینا چاہئے، جب رسول کریم ﷺ ہر قسم کے گناہوں سے معصوم ہونے کے باوجود اپنے ربّ کے حضور اس قدر عجز و نیاز اور گریہ و زاری فرمائیں، تو ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے۔ اور جب رحمت الٰہی کا سمندر طغیانی پہ ہو تو ہمیں بھی خلوص دل سے توبہ و استغفار کرنا چاہئے کیوں کہ اس وقت رحمت الٰہی پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی ہے: کوئی ہے بخشش مانگنے والا کہ اسے بخش دوں، کوئی ہے رزق کا طلب گار کہ میں اس کا دامنِ مراد بھر دوں۔ اس ندائے رب العالمین پر ہمیں رجوع ہونے کی توفیق نصیب ہوجائے۔ (آمین)
٭٭٭